نئی دنیا ترا چرچا بہت ہے

نئی دنیا ترا چرچا بہت ہے
مرا بیٹا بھی آوارہ بہت ہے


میں شاید پاگلوں سا لگ رہا ہوں
وہ مجھ کو دیکھ کر ہنستا بہت ہے


یہ بکھری پتیاں جس پھول کی ہیں
وہ اپنی شاخ پر مہکا بہت ہے


سمٹ جائیں تو دشمن کے مقابل
ہماری قوم کا بچہ بہت ہے


سمندر سے معافی چاہتے ہیں
ہماری پیاس کو قطرہ بہت ہے


اسی کے سائے میں کب سے کھڑا ہوں
وہ اک دیوار جو خستہ بہت ہے


میں کب تک در بدر پھرتا رہوں گا
تمہارے گھر کا دروازہ بہت ہے


غزل بھارت میں لکھی جا رہی ہے
مگر ہم سایے کا چرچا بہت ہے


اسے استاد کہتا ہے زمانہ
جو پڑھتا کم ہے اور لکھتا بہت ہے