فیصلے کی یہ گھڑی ہے
فیصلے کی یہ گھڑی ہے ٹرین پٹری پر کھڑی ہے دور واں جو جھونپڑی ہے شہہ کی آنکھوں میں اڑی ہے رات ہم کو کھا رہی ہے تم کو سونے کی پڑی ہے ہم تری خاطر رکے ہیں موت تو آ کر کھڑی ہے وقت بھی اچھا نہیں ہے ہاتھ میں ٹوٹی گھڑی ہے
فیصلے کی یہ گھڑی ہے ٹرین پٹری پر کھڑی ہے دور واں جو جھونپڑی ہے شہہ کی آنکھوں میں اڑی ہے رات ہم کو کھا رہی ہے تم کو سونے کی پڑی ہے ہم تری خاطر رکے ہیں موت تو آ کر کھڑی ہے وقت بھی اچھا نہیں ہے ہاتھ میں ٹوٹی گھڑی ہے
کوئی مجبوریاں گنوا رہا ہے مجھے تو خوب ہنسنا آ رہا ہے اداسی کر رہی ہے رقص ہجرت ہمیشہ کے لیے وہ جا رہا ہے کوئی عورت ابھی گھر چھوڑ دے گی کوئی جنگل سے واپس آ رہا ہے کبھی ہنستے ہوئے جو کہہ دیا تھا مرا وہ شعر مجھ کو کھا رہا ہے گلے میں پڑ چکی رسی کسی کے کنوئیں میں کوئی مرنے جا رہا ہے
یہ ملی اعتبار کی قیمت لگ گئی میرے پیار کی قیمت مجھ سے اک جنگ جیتنی تھی اسے سو لگی میری ہار کی قیمت ہم کو اک پھول تک نصیب نہیں ہم سے پوچھو بہار کی قیمت آپ کو پیار مل گیا اپنا آپ کیا جانو پیار کی قیمت آ کے باہوں میں بھر لیا اس نے مل گئی انتظار کی قیمت
خواہشیں آئیں اندھیروں کی سی فطرت اوڑھے پھر غم آیا چڑھتی راتوں کی سی خصلت اوڑھے یار مانا تھا اسے ہم نے محبت کی تھی وہ مگر آیا رقیبوں کی سی ظلمت اوڑھے باغ یہ اہل چمن نے ہی اجاڑا آخر اب مناظر ہے بیاباں کی سی وحشت اوڑھے پر نکلتے ہی پرندہ گھونسلے کو بھولا اڑ گیا دور وہ منزل کی سی ...
یادوں کی راکھ میں ہر لمحہ دھواں دھواں ہے ہونٹوں پہ بکھرا ہر اک نغمہ دھواں دھواں ہے ماضی کی آگ میں جل کے عمر گزری ساری اب بجھ گئی ہوں تو یہ چہرہ دھواں دھواں ہے انسانیت کی لو بجھتی ہے گلی گلی میں اور شہر بھر میں ہر اک رستہ دھواں دھواں ہے تنہائی کی ہوا سے اک شمع ہاری کل شب کمرے کا ...
اداس نینا جو برستے ہیں سحاب کی طرح تو غم کے پھول بھی مہکتے ہیں گلاب کی طرح لرز لرز کے ایسے یاد آتے ہیں وہ گزرے دن کہ نفس نفس جھنجھناتا ہے رباب کی طرح یہ دنیا کے نظارے یادیں خواب عشق زندگی لبھاتے ہیں یہاں پہ سب کے سب سراب کی طرح جہاں کے ظلم سہتے سہتے فاختہ بھی بارہا عقب سے پنجے ...
جاگے سے کتنے گھر دیکھے رات کی خامشی میں دیوار پہ سائے ہی تو تھے رات کی خامشی میں گل بوٹے اور باغ جب سو جاتے ہیں خوابوں کو اوڑھے تب رات رانی ہی خوشبو دے رات کی خامشی میں دن بھر خود اپنی لگائی آتش میں دل جل رہا تھا اب شمع سا بجھ رہا ہے یہ رات کی خامشی میں تنہائی میں چبھتے ہیں جب ...
گھر ہمارے خاک ٹیلے ہو گئے لوگ اپنے ہی وسیلے ہو گئے رات اس ناگن نے ہم کو یوں ڈسا دیکھ اپنے ہونٹ نیلے ہو گئے بات کس سے کر رہا ہوں فون پر سوچ کر وہ لال پیلے ہو گئے تم یہاں پر شاعری کرتے رہے اور اس کے ہاتھ پیلے ہو گئے سوچ تیرا نام کھائے جو گئے نیم کے پتے رسیلے ہو گئے
ترے غرور مرے ضبط کا سوال رہا بکھر بکھر کے تجھے چاہنا کمال رہا وہیں پے ڈوبنا آرام سے ہوا ممکن جہاں پہ موج و سفینہ میں اعتدال رہا نہیں کہ شام ڈھلے تم نہ لوٹتے لیکن تمہاری راہ میں سورج ہی لا زوال رہا پھر اپنا ہاتھ کلیجہ پہ رکھ لیا ہم نے پھر اس کے پاؤں کی آہٹ کا احتمال رہا
اس گلی تک سڑک رہی ہوگی راہ اب بھی وہ تک رہی ہوگی رشک بادل کو بھی ہوا ہوگا دھوپ اس پر چمک رہی ہوگی میں بھی کب میں ہوں ایسے موسم میں وہ بھی خود میں بہک رہی ہوگی دشت و صحرا کی اوٹ میں شاید یہ زمیں زخم ڈھک رہی ہوگی وہ بہت اجنبی سا پیش آیا دل میں کوئی کسک رہی ہوگی جو شجر صحن میں لگا ...