اداس نینا جو برستے ہیں سحاب کی طرح
اداس نینا جو برستے ہیں سحاب کی طرح
تو غم کے پھول بھی مہکتے ہیں گلاب کی طرح
لرز لرز کے ایسے یاد آتے ہیں وہ گزرے دن
کہ نفس نفس جھنجھناتا ہے رباب کی طرح
یہ دنیا کے نظارے یادیں خواب عشق زندگی
لبھاتے ہیں یہاں پہ سب کے سب سراب کی طرح
جہاں کے ظلم سہتے سہتے فاختہ بھی بارہا
عقب سے پنجے مارتی ہے پھر عقاب کی طرح
جہان حسن کا یہی ہوا ہے حشر ہر دفعہ
کہ چار دن میں یہ گھٹا ہے ماہتاب کی طرح
زباں پہ جب بھی آہ بن کے آرزو مچلتی ہے
تو درد سینہ میں ابھرتا ہے حباب کی طرح
پلا دے جام ساقیا کہ رات آنے والی ہے
ہمیں فلاں کی یاد آئی پھر عذاب کی طرح