جاگے سے کتنے گھر دیکھے رات کی خامشی میں
جاگے سے کتنے گھر دیکھے رات کی خامشی میں
دیوار پہ سائے ہی تو تھے رات کی خامشی میں
گل بوٹے اور باغ جب سو جاتے ہیں خوابوں کو اوڑھے
تب رات رانی ہی خوشبو دے رات کی خامشی میں
دن بھر خود اپنی لگائی آتش میں دل جل رہا تھا
اب شمع سا بجھ رہا ہے یہ رات کی خامشی میں
تنہائی میں چبھتے ہیں جب یادوں کے نشتر سے اکثر
گوشہ میں ہم روتے ہیں کھل کے رات کی خامشی میں
گر نیند ہے تو پھر ان جلتی آنکھوں میں تو اتر آ
گر موت ہے تو لے چل یاں سے رات کی خامشی میں
کاٹی نہیں جاتی اب مجھ سے ہجر کی لمبی راتیں
کوئی مرے دل کو بہلا دے رات کی خامشی میں
ہو جھیل میں چاند اترا یا خواب میں کھوئی وانیؔ
سب اپنے ہی اشک سے بھیگے رات کی خامشی میں