خواہشیں آئیں اندھیروں کی سی فطرت اوڑھے

خواہشیں آئیں اندھیروں کی سی فطرت اوڑھے
پھر غم آیا چڑھتی راتوں کی سی خصلت اوڑھے


یار مانا تھا اسے ہم نے محبت کی تھی
وہ مگر آیا رقیبوں کی سی ظلمت اوڑھے


باغ یہ اہل چمن نے ہی اجاڑا آخر
اب مناظر ہے بیاباں کی سی وحشت اوڑھے


پر نکلتے ہی پرندہ گھونسلے کو بھولا
اڑ گیا دور وہ منزل کی سی چاہت اوڑھے


یاد میں رہ بھی گئی ہے تو وہ تنہا راتیں
عمر گزری ہے یہ مرگھٹ کی سی خلوت اوڑھے


تیرے در پہ ایک عرصے سے ارے او کانہا
روح برپا ہے یہ میرا کی سی حسرت اوڑھے