یادوں کی راکھ میں ہر لمحہ دھواں دھواں ہے

یادوں کی راکھ میں ہر لمحہ دھواں دھواں ہے
ہونٹوں پہ بکھرا ہر اک نغمہ دھواں دھواں ہے


ماضی کی آگ میں جل کے عمر گزری ساری
اب بجھ گئی ہوں تو یہ چہرہ دھواں دھواں ہے


انسانیت کی لو بجھتی ہے گلی گلی میں
اور شہر بھر میں ہر اک رستہ دھواں دھواں ہے


تنہائی کی ہوا سے اک شمع ہاری کل شب
کمرے کا میرے کونا کونا دھواں دھواں ہے


تو روٹھ کر نہ میرے دل کو جلا مرے یار
لگ جا گلے کہ دل کا شعلہ دھواں دھواں ہے


دنیا کی دھوپ میں جانے کب سے ہی جھلس کر
میرے وجود کا ہر ذرہ دھواں دھواں ہے


اک ٹھہری ٹھہری سی خواہش کی تپش سے وانیؔ
نم آنکھوں کا یہ گیلا صحرا دھواں دھواں ہے