قومی زبان

جس بھی جگہ دیکھی اس نے اپنی تصویر ہٹا لی تھی

جس بھی جگہ دیکھی اس نے اپنی تصویر ہٹا لی تھی میرے دل کی دیواروں پر دیمک لگنے والی تھی ایک پرندہ اڑنے کی کوشش میں گر گر جاتا تھا گھر جانا تھا اس کو پر وہ رات بہت ہی کالی تھی آنگن میں جو دیپ قطاروں میں رکھے تھے دھواں ہوئے ہوا چلی اس رات بہت جب میرے گھر دیوالی تھی اک مدت پر گھر لوٹا ...

مزید پڑھیے

تیرے پہلو یا درمیاں نکلے

تیرے پہلو یا درمیاں نکلے ایک جاں ہے کہاں کہاں نکلے اس طرح سے کبھی سمیٹ مجھے میرے کھلنے پر اک جہاں نکلے سوچتا ہوں یوں نہ ہو اک دن یہ زمیں کوئی آسماں نکلے آ تری سانس سانس پی لوں میں جسم سے روح کا دھواں نکلے

مزید پڑھیے

سوچنا بھی عجیب عادت ہے

سوچنا بھی عجیب عادت ہے یہ بھی تو سوچنے کی صورت ہے اب مجھے آپ چھوڑ جائیے گا اب مجھے آپ کی ضرورت ہے میری سگریٹ پہ اعتراض تو ہیں کیا مجھے چومنے کی حسرت ہے بس اپنے آپ میں الجھا ہوا ہے اسے کہہ دو کہ شعر اچھا ہوا ہے سمندر کی چٹائی کھینچ لو اب بہت دن سے یہیں بیٹھا ہوا ہے بنا تھا تم نے ...

مزید پڑھیے

کوئی لے گا نہیں بدلا ہمارا

کوئی لے گا نہیں بدلا ہمارا ہمیں کو قتل ہے کرنا ہمارا نچھاور جان بھی ہے اس پہ کرنی ابھی طے بھی نہیں مرنا ہمارا ہمارے ہونٹ کے صحرا تمہارے تمہاری آنکھ کا دریا ہمارا ابھی اک شعر کہنا رہ گیا ہے ابھی نکلا نہیں کانٹا ہمارا

مزید پڑھیے

نم آنکھوں میں کیا کر لے گا غصہ دیکھیں گے

نم آنکھوں میں کیا کر لے گا غصہ دیکھیں گے اوس کے اوپر چنگاری کا لہجہ دیکھیں گے شیشے کے بازار سے لے آئیں گے کچھ چہرے وہی پہن کر ہم گھر کا بھی شیشہ دیکھیں گے کتنی دور تلک جائے گی ضبط کی یہ کشتی کتنا گہرا ہے اس درد کا دریا دیکھیں گے دریا کے پیچھے پیچھے ہم صحرا تک آئے کس منزل کو لے ...

مزید پڑھیے

اب کہاں درد جسم و جان میں ہے

اب کہاں درد جسم و جان میں ہے دفن ہے دل بدن دکان میں ہے دن ڈھلے روز یوں لگے جیسے کوئی مجھ سا مرے مکان میں ہے دل کا کچھ بھی پتا نہیں چلتا ہاتھ میں ہے کہ آسمان میں ہے چھاؤں کے پل جلا دیے سارے اف وہ سورج جو سائبان میں ہے کیوں نہ تشبیہ پھول ہو اس کی وہ جو خوشبو سا داستان میں ہے اک ...

مزید پڑھیے

تمام ریت پہ بکھرا ہے تن اداسی کا

تمام ریت پہ بکھرا ہے تن اداسی کا وہ لہر ہے یا کوئی پیرہن اداسی کا ہے اک دریچہ جہاں سے وہ دیکھتی ہے اتیت سو لگ گیا مرے کمرے میں من اداسی کا میں اس کی چھاؤں میں بیٹھوں تو جسم جلتا ہے مرے شجر پہ لگا ہے گہن اداسی کا ہمارے عشق کو قدرت نے جان بخشی ہے تم اک سکوت ہو اور میں ہوں بن اداسی ...

مزید پڑھیے

رہی ہے یوں ہی ندامت مجھے مقدر سے

رہی ہے یوں ہی ندامت مجھے مقدر سے گزر رہی ہے صبا جس طرح مرے گھر سے چڑھا ہے شوق مجھے ضبط آزمانے کا لکھوں فسانہ کوئی آئنہ پے پتھر سے مسافروں سا کبھی جب میں شہر سے گزرا تو راستوں میں کئی راستے تھے بنجر سے تمہارے غم نے ڈبویا ہے پر پکارو تو میں لوٹ آؤں اسی پل کسی سمندر سے مزے کی ٹھنڈ ...

مزید پڑھیے

باتوں باتوں میں ہی عنوان بدل جاتے ہیں

باتوں باتوں میں ہی عنوان بدل جاتے ہیں کتنی رفتار سے انسان بدل جاتے ہیں چوریاں ہو نہیں پاتیں تو یہی ہوتا ہے اپنی بستی کے نگہبان بدل جاتے ہیں کوئی منزل ہی نہیں ٹھہریں مرادیں جس پر وقت بدلے بھی تو ارمان بدل جاتے ہیں اس کے دامن سے امیدوں کے گلوں کو چن کر زندگی کے سبھی امکان بدل ...

مزید پڑھیے

اب ہم چراغ بن کے سر راہ جل اٹھے

اب ہم چراغ بن کے سر راہ جل اٹھے دیکھیں تو کس طرح سے بھٹکتے ہیں قافلے جو منتظر تھے بات کے منہ دیکھتے رہے خاموش رہ کے ہم تو بڑی بات کہہ گئے کب منزلوں نے چومے قدم ان کے ہمدمو ہر راہ روکے ساتھ جو رہ گیر چل پڑے جانے زباں کی بات تھی یا رنگ روپ کی ہم آپ اپنے شہر میں جو اجنبی رہے وہ لوگ ...

مزید پڑھیے
صفحہ 458 سے 6203