قومی زبان

سمندروں سے کبھی دشت سے گزرنے میں

سمندروں سے کبھی دشت سے گزرنے میں ہوئے تمام سفر زندگی کا کرنے میں بس اس نے آ کے ذرا آئنے کو دیکھا تھا ذرا سی دیر لگی روشنی بکھرنے میں بچھڑنا شاخ سے کل بھی ہے اور آج بھی ہے تو آندھیوں سے بھلا کیا رکھا ہے ڈرنے میں میں بے سبب ہی مخاطب ہوا دریچے سے نہا رہا تھا وہ یادوں کے ایک جھرنے ...

مزید پڑھیے

غروب ہوتے ہوئے سورجوں کے پاس رہے

غروب ہوتے ہوئے سورجوں کے پاس رہے اداس شام کی مانند ہم اداس رہے کھنڈر سا ایک مکاں تاکتا ہے رستوں کو نہ جانے آج کہاں اس کے غم شناس رہے بہار آئی تو سج دھج کے ہو گئے تیار درخت صرف خزاؤں میں بے لباس رہے یہ کہہ کے ہو گئے تھوڑے سے بے وفا ہم بھی ہمیشہ کون محبت میں دیوداس رہے مرے خیال ...

مزید پڑھیے

میرے حصے کی اداسی مجھے لوٹا دینا

میرے حصے کی اداسی مجھے لوٹا دینا جا رہے ہو تو مجھے کوئی تو تحفہ دینا ایک قطرہ بھی مری پیاس بجھا سکتا ہے میں نے کب تم سے کہا ہے مجھے دریا دینا میرے صحرا مجھے ہونا ہے اندھیروں کے خلاف جس میں سورج بھی چلا آئے وہ خیمہ دینا کون لائے گا کسی پیاس کے سجدے کا جواب اے خدا دشت نہ اب کرب و ...

مزید پڑھیے

بہتے ہوئے دریا کے کناروں کی طرح تھا

بہتے ہوئے دریا کے کناروں کی طرح تھا تجھ سے مرا رشتہ کبھی خوابوں کی طرح تھا بستر پہ اتر آئی تھیں مہتاب کی کرنیں لہجہ ترا کل رات اجالوں کی طرح تھا میں اس کو پڑھا کرتا تھا ہر رات بہت دیر وہ شخص مرے پاس کتابوں کی طرح تھا کیا لمس تھا کیا زلف تھی کیا سرخیٔ لب تھی ہر رنگ ترا جیسے ...

مزید پڑھیے

آنکھیں ملا رہے ہیں وہی آسمان سے

آنکھیں ملا رہے ہیں وہی آسمان سے واقف نہیں ہیں لوگ جو اپنے جہان سے کیا جانے کیسی جنگ ہے تشنہ لبی کے ساتھ خنجر ہی ہاتھ دھونے لگے اپنی جان سے اک دوسرے کے خون کی پیاسی ہے کائنات رہتا نہیں ہے کوئی کہیں بھی امان سے تاج شہی پہ خاک اڑاتا رہا فقیر مٹی نے عمر کاٹ ہی لی اپنی شان سے اب ...

مزید پڑھیے

کسی کے دیدۂ تر کو نظر میں رکھتے ہیں

کسی کے دیدۂ تر کو نظر میں رکھتے ہیں سفر میں خود کو مگر دل کو گھر میں رکھتے ہیں پلٹنا پڑتا ہے ہر شام ان پرندوں کو نہ جانے کون سی شے کو شجر میں رکھتے ہیں کھلی فضاؤں کی وسعت وہ کیسے سمجھیں گے جو قید خواب کو دیوار و در میں رکھتے ہیں پکارتے ہیں انہیں ان کے گھر کے سناٹے وہ اپنے آپ کو ...

مزید پڑھیے

اس کا کوئی مجھے پتہ ہی نہیں

اس کا کوئی مجھے پتہ ہی نہیں وہ مرے شہر میں رہا ہی نہیں اس کی آنکھیں عجیب آنکھیں تھیں خواب جن میں کبھی سجا ہی نہیں تیرا انکار کیا قیامت ہے لوگ کہنے لگے خدا ہی نہیں وہ خیالوں میں گھر میں رہتا ہے وہ سفر پر کبھی گیا ہی نہیں عمر بھر تیرا ذکر کرنا ہے ایک دن کا یہ سلسلہ ہی نہیں چاند ...

مزید پڑھیے

کوئی چراغ نہ جگنو سفر میں رکھا گیا

کوئی چراغ نہ جگنو سفر میں رکھا گیا دل و دماغ کو جب اپنے گھر میں رکھا گیا کھرچ کھرچ کے لکھا نام ایک خوشبو کا کسی کی یاد کو یوں بھی شجر میں رکھا گیا جو ایک لمحے کو چمکا تھا طور ہستی پر وہی تو عکس ہمیشہ نظر میں رکھا گیا مری نگاہ نے دیکھے نہیں کھنڈر اب تک مجھے تو گاؤں سے پہلے نگر میں ...

مزید پڑھیے

آنکھ سے نکلا تو اک سیل رواں ہو جائے گا

آنکھ سے نکلا تو اک سیل رواں ہو جائے گا ورنہ احساس محبت رائیگاں ہو جائے گا یہ مقید رہ سکا ہے کب کسی زندان میں عشق خوشبو ہے زمانے پر عیاں ہو جائے گا جسم کی دہلیز پر دستک سی ہے مہتاب کی کیا بدن اس رات میرا آسماں ہو جائے گا عمر کے اک دور میں یاد آئے گا صحرا کا ساتھ یہ سفر جو ہے حقیقت ...

مزید پڑھیے

سائے نے سائے کو صدا دی

سائے نے سائے کو صدا دی ریت کی ہر دیوار گرا دی اس گھر میں رکھا ہی کیا تھا میں نے گھر میں آگ لگا دی نیند تمہیں آتی ہی کب تھی یاد نے کس کی نیند اڑا دی گزرے تھے خاموش گلی سے وہ جانے اب جس نے صدا دی ایک ذرا سی بات تھی جس کی دل نے ساری عمر سزا دی میں اپنے غم میں ڈوبا تھا تم نے کیوں آواز ...

مزید پڑھیے
صفحہ 443 سے 6203