قومی زبان

چراغ جب سے مرے تیرگی سے ہار گئے

چراغ جب سے مرے تیرگی سے ہار گئے ہوا سے ہاتھ ملانے کو سارے یار گئے ہر ایک بار سفر میرا مختصر کیوں تھا سفینے مجھ کو ہی ساحل پہ کیوں اتار گئے تری سرائے میں ساماں کہاں سکون کا تھا کسی طرح سے مسافر بھی شب گزار گئے میں جن کو سائے میں رکھتا تھا تپتے صحرا میں غضب ہے لوگ وہی مجھ پہ سنگ ...

مزید پڑھیے

یہ ٹھیک ہے وہ ہم کو میسر نہیں ہوا

یہ ٹھیک ہے وہ ہم کو میسر نہیں ہوا لیکن کہاں کہاں وہ منور نہیں ہوا لوٹا جو شام کو تو کوئی منتظر نہ تھا اس بار بے قرار مرا گھر نہیں ہوا کیا جانے کب اترنے لگے وہ دماغ پر کوئی جنوں کا وقت مقرر نہیں ہوا سب جیتنے کی ضد پہ یہاں ہارنے لگے صدیوں سے کوئی شخص سکندر نہیں ہوا بازو تو کٹ کے ...

مزید پڑھیے

کچھ لوگ تو اتنی بھی مروت نہیں کرتے

کچھ لوگ تو اتنی بھی مروت نہیں کرتے ملنے کی کبھی خود سے بھی زحمت نہیں کرتے اس بار تو رستے بھی مجھے روک رہے ہیں دیوار و در و بام ہی الفت نہیں کرتے بازار میں اب کون خریدار ہے اپنا اتنی بھی زیادہ ابھی قیمت نہیں کرتے کیا ہوگا سر شام جو ہم ہوں گے نہ گھر میں یہ سوچ کے ہم شہر سے ہجرت ...

مزید پڑھیے

دریائے تیرگی میں بکھرنا پڑا مجھے

دریائے تیرگی میں بکھرنا پڑا مجھے سورج کے ساتھ ساتھ اترنا پڑا مجھے دو چار دن نگاہ کا مرکز رہا کوئی پھر فاصلوں کا فیصلہ کرنا پڑا مجھے کیا جانے کس مزاج کے کتنے حبیب تھے اپنی ہی آستین سے ڈرنا پڑا مجھے آنکھوں سے عمر بھر نہ ملاقات ہو سکی بیکار آئنے میں سنورنا پڑا مجھے اک زندگی کو ...

مزید پڑھیے

میں اپنی ذات کی تفسیر کرنے والا کون

میں اپنی ذات کی تفسیر کرنے والا کون میں ایک خواب ہوں تعبیر کرنے والا کون لکھی ہوئی ہے جو دل کی زباں میں دھڑکن پر میں اس کتاب کو تحریر کرنے والا کون ابھی تو قید سے نکلا ہوں ان نگاہوں کی میں پھر خیال کو زنجیر کرنے والا کون میں اپنے آپ کو جیتوں یہی مناسب ہے میں ممکنات کو تسخیر ...

مزید پڑھیے

تودۂ خاک بدن آب رواں خوب ہوا

تودۂ خاک بدن آب رواں خوب ہوا اب کے برسات میں مٹی کا زیاں خوب ہوا ایسا محسوس ہوا تو نہیں راضی مجھ سے بے یقینی کا مجھے تجھ پہ گماں خوب ہوا خوشبوئے عشق اڑی لے کے پروں پر تتلی جس کو چاہا تھا چھپانا وہ عیاں خوب ہوا کوئی جلتا ہوا منظر تو نہیں تھا لیکن ہاں مگر رات سنا ہے کہ دھواں خوب ...

مزید پڑھیے

دریا تھا موج غم تھی سفینہ کوئی نہ تھا

دریا تھا موج غم تھی سفینہ کوئی نہ تھا تاریک راستے تھے اجالا کوئی نہ تھا پھر بھی تمہارے شہر نے رکھا مرا خیال حالانکہ میرا چاہنے والا کوئی نہ تھا پلکوں پہ سب کی بوجھ ہے اک احتیاط کا کل رات میرے گاؤں میں سویا کوئی نہ تھا سب لوگ چل رہے تھے سڑک پر ملا کے ہاتھ دیکھا جو غور سے تو کسی ...

مزید پڑھیے

پتھروں سے نہ کبھی ٹوٹ کے الفت کرنا

پتھروں سے نہ کبھی ٹوٹ کے الفت کرنا جسم شیشے کا نہیں پھر بھی حفاظت کرنا اب نہ چھو لینا کبھی پھول سے رخساروں کو انگلیاں اپنی جلانے کی نہ زحمت کرنا جھکنے دینا نہ کسی پیڑ کی شاخوں کا غرور ڈھلتے سورج سے ذرا سی تو مروت کرنا اب جو بکھرے ہیں در و بام تو حیرت کیسی ہم نے سیکھا ہی نہ تھا ...

مزید پڑھیے

سبب نہیں تھا کوئی یوں تو اپنے رونے کا

سبب نہیں تھا کوئی یوں تو اپنے رونے کا ہوا تھا شوق مگر آستیں بھگونے کا یہ کس خیال میں دن رات اب گزرتے ہیں نہ جاگنے کا کوئی وقت ہے نہ سونے کا ہم اپنے آپ کو پانے میں اس قدر گم تھے ہمیں ملا ہی نہیں وقت اس کو کھونے کا وہ موج تند بھی دریا کی تہ میں ڈوب گئی جسے تھا شوق بہت کشتیاں ڈبونے ...

مزید پڑھیے

کیا جانے کس خیال میں کس راستے میں ہوں

کیا جانے کس خیال میں کس راستے میں ہوں شاید میں تیرے بعد کسی مسئلے میں ہوں وہ بھی گھرا ہوا ہے زمانے کی بھیڑ میں میں بھی اسی جہاں سے ابھی رابطے میں ہوں تو مسکرا کے آج مجھے کر رہا ہے یاد یعنی میں تیرے ساتھ ترے آئنے میں ہوں صحرا میں تیز دھوپ کا احساس ہی نہیں باقی ہے ایک پیڑ ابھی ...

مزید پڑھیے
صفحہ 442 سے 6203