چاہتوں کی جو دل کو عادت ہے
چاہتوں کی جو دل کو عادت ہے یہ بھی انساں کی اک ضرورت ہے ہم فرشتے کہاں سے بن جائیں عشق انسان کی جبلت ہے کون آیا ہے کون آئے گا بے سبب جاگنے کی عادت ہے کیا ملیں گے جو کھو گئے اک بار بھیڑ میں ڈھونڈھنا قیامت ہے ان کے انداز دشمنی میں بھی دوستی کی عجب شباہت ہے میرے اندر جو میرا دشمن ...