بہتے ہوئے دریا کے کناروں کی طرح تھا

بہتے ہوئے دریا کے کناروں کی طرح تھا
تجھ سے مرا رشتہ کبھی خوابوں کی طرح تھا


بستر پہ اتر آئی تھیں مہتاب کی کرنیں
لہجہ ترا کل رات اجالوں کی طرح تھا


میں اس کو پڑھا کرتا تھا ہر رات بہت دیر
وہ شخص مرے پاس کتابوں کی طرح تھا


کیا لمس تھا کیا زلف تھی کیا سرخیٔ لب تھی
ہر رنگ ترا جیسے شرابوں کی طرح تھا


کچھ دیر کو خوش کر کے چلے سارے جہاں کو
کیا اپنا تعلق بھی تماشوں کی طرح تھا


دنیا نے بہت چاہا کہ نام اس کا بتا دوں
وہ دفن تھا مجھ میں مرے رازوں کی طرح تھا


کھونے نہیں دیتا تھا مجھے بھیڑ میں احساس
جکڑے ہوئے مجھ کو تری بانہوں کی طرح تھا