غفلت میں نہ کھو عمر کہ پچھتائے گا
غفلت میں نہ کھو عمر کہ پچھتائے گا رونا ہی غم شاہ میں کام آئے گا اسباب تعلق سے نہ بھر دل اپنا چلتے ہوئے سب کچھ یہیں رہ جائے گا
غفلت میں نہ کھو عمر کہ پچھتائے گا رونا ہی غم شاہ میں کام آئے گا اسباب تعلق سے نہ بھر دل اپنا چلتے ہوئے سب کچھ یہیں رہ جائے گا
اے شاہ کے غم میں جان کھونے والو اے ابن علی کے صدقے ہونے والو اس اجر عظیم کو نہ دو ہاتھوں سے اب دو ہی شبیں اور ہیں رونے والو
ظاہر وہی الفت کے اثر ہیں اب تک قربان شہہ جن و بشر ہیں اب تک ہوتے ہیں علم آگے جب اٹھتی ہے ضریح عباس علی سینہ سپر ہیں اب تک
دکھ میں ہر شب کراہتا ہوں یارب اب زیست کے دن نباہتا ہوں یارب طالب زر و مال کے ہیں سب دنیا میں میں تجھ سے تجھی کو چاہتا ہوں یارب
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی جو ظرف کہ خالی ہے صدا دیتا ہے
قطرے ہیں یہ سب جس کے وہ دریا ہے علی پنہاں ہے کبھی تو گاہ پیدا ہے علی ہوتا ہے گماں خدا کا جس پر ہر بار اللہ اللہ ایسا بندہ ہے علی
الفت ہو جسے اسے ولی کہتے ہیں ایسوں کو سعید ازلی کہتے ہیں اس بزم میں دھوپ اٹھا کے آتے ہیں جو لوگ ہنس کر طوبیٰ لکم علی کہتے ہیں
جو مرتبہ احمد کے وصی کا دیکھا ہم نے نہیں رتبہ یہ کسی کا دیکھا کہتے ہیں نبی جب ہوئی معراج مجھے پہنچا جو وہاں ہاتھ علی کا دیکھا
انداز سخن تم جو ہمارے سمجھو جو لطف کلام ہیں وہ سارے سمجھو آواز گرفتہ گو ہے اس ذاکر کی پہروں رؤو اگر اشارے سمجھو
افزوں ہیں بیاں سے معجزات حیدر حلال مہمات ہے ذات حیدر توریت انجیل اور زبور و قرآن ہیں ایک رباعی صفات حیدر