جو نخل ہو خشک اس کا پھلنا کیا ہے
جو نخل ہو خشک اس کا پھلنا کیا ہے دنیا ہی نہیں تو کار دنیا کیا ہے پیدا ہوا گر کوئی تو ناپید کوئی ہوتا دن رات یہ تماشا کیا ہے
جو نخل ہو خشک اس کا پھلنا کیا ہے دنیا ہی نہیں تو کار دنیا کیا ہے پیدا ہوا گر کوئی تو ناپید کوئی ہوتا دن رات یہ تماشا کیا ہے
میں خاک تھا آدمی بنایا تو نے اور عیب معاصی کو چھپایا تو نے کیا شکر ادا کروں کرم کا تیرے اس کاہ کو کوہ کر دکھایا تو نے
رہبان کا قیس کا محبوب ہے تو اور برہمن و شیخ کا مرغوب ہے تو ہوں اہل کنشت یا کہ اہل مسجد ہر رنگ کے طالبوں کا مطلوب ہے تو
زوروں پہ ہے روز ناتوانی میری بد تر پیری سے ہے جوانی میری دنیا میں پھنسا دیا عدم سے لا کر گزری زنداں میں زندگانی میری
بلبل کی ہزار آشنائی دیکھی اور گل کی کروڑ بے وفائی دیکھی کچھ اپنا برا بھلا نہ دیکھا ناحق اور دل کی برائی بھلائی دیکھی
دل تجھ پہ مرا جو مبتلا رہتا ہے کوچے میں ترے ہمیشہ جا رہتا ہے تو گرچہ نہ آوے خواب میں بھی مجھ تک میرا تو خیال واں لگا رہتا ہے
نہ مے کے نہ جام کے لئے مرتے ہیں نہ دہر میں نام کے لئے مرتے ہیں شاید کبھی بعد مرگ پوچھے وہ ہمیں بس ہم اسی کام کے لئے مرتے ہیں
ظاہر بھی تو ہے اور نہاں بھی تو ہے معنی بھی تو ہے اور بیاں بھی تو ہے دونوں عالم میں تجھ سے سوا کوئی نہیں یاں بھی تو ہے اور وہاں بھی تو ہے
عصیاں سے ہوں شرمسار توبہ یارب کرتا ہوں میں بار بار توبہ یارب نہ جرم کا پایاں نہ گناہوں کا شمار اک توبہ تو کیا ہزار توبہ یارب
اب زیر قدم لحد کا باب آ پہنچا ہشیار ہو جلد وقت خواب آ پہنچا پیری کی بھی دوپہر ڈھلی آہ انیسؔ ہنگام غروب آفتاب آ پہنچا