پروانے کو دھن شمع کو لو تیری ہے
پروانے کو دھن شمع کو لو تیری ہے عالم میں ہر ایک کو تگ و دو تیری ہے مصباح و نجوم آفتاب و مہتاب جس نور کو دیکھتا ہوں ضو تیری ہے
پروانے کو دھن شمع کو لو تیری ہے عالم میں ہر ایک کو تگ و دو تیری ہے مصباح و نجوم آفتاب و مہتاب جس نور کو دیکھتا ہوں ضو تیری ہے
درگاہ علم دار سے بہبودی ہے بیماری کو واں شفائے خوشنودی ہے ہم مرتبۂ کربلا ہے درگاہ جلیل واں خاک شفا ہے اور یہاں اودی ہے
اس بزم میں ارباب شعور آئے ہیں یہ شیعہ ہیں یا آیۂ نور آئے ہیں پڑھ مرثیہ لے داد سخن ان سے دبیرؔ کیا کیا حضرات کانپور آئے ہیں
اعدا کو ادھر حرام کا مال ملا حرؔ کو اسداللہ کا ادھر لال ملا واللہ کلاہ سر عالم ہوا حرؔ حلہ ملا معصومہ کا رومال ملا
ادنیٰ سے جو سر جھکائے اعلیٰ وہ ہے جو خلق سے بہرہ ور ہے دریا وہ ہے کیا خوب دلیل ہے یہ خوبی کی دبیرؔ سمجھے جو برا آپ کو اچھا وہ ہے
فرمان علی لوح و قلم تک پہنچا فضل ان کا ہر ایک غم میں ہم تک پہنچا ہاتھ اس کے لگا پارس ایماں سر دست سر جس کا یداللہ کے قدم تک پہنچا
آفاق سے استاد یگانہ اٹھا مضموں کے جواہر کا خزانہ اٹھا انصاف کا نوحہ ہے یہ بالائے زمیں سرتاج فصیحان زمانہ اٹھا
کیا قامت احمد نے ضیا پائی ہے چہرے میں عجب نور کی زیبائی ہے مصحف پہ نہ کیوں فخر ہو اس صورت کو قرآن سے پہلے یہ کتاب آئی ہے
ہم شان نجف نہ عرش انور ٹھہرا میزان میں یہ بھاری وہ سبک تر ٹھہرا اس پلے میں تھا نجف اور اس پلے میں عرش پہنچا وہ فلک پہ یہ زمیں پر ٹھہرا
پھر چرخ پر آسمان پیر آیا ہے ہر کوچہ میں وقت دار و گیر آیا ہے اگلا سا نہ مجمع ہے نہ اگلے سے وہ لوگ یاں آن کے حیرت میں دبیرؔ آیا ہے