سارا منظر ہی اجنبی ہے یہاں
سارا منظر ہی اجنبی ہے یہاں صرف اک وہم دوستی ہے یہاں شہر میں کب کا چھوڑ ہی دیتا لیکن اک شخص آدمی ہے یہاں
سارا منظر ہی اجنبی ہے یہاں صرف اک وہم دوستی ہے یہاں شہر میں کب کا چھوڑ ہی دیتا لیکن اک شخص آدمی ہے یہاں
مت پوچھئے دامن کیوں اشکوں سے بھگویا ہے اک داغ پرانا تھا اس داغ کو دھویا ہے امید نہیں لیکن حسرت ہے ابھی باقی اک دن وہ پکارے گا جس نے ہمیں کھویا ہے
اپنی تخلیق سے ہوتی ہے محبت سب کو سوچتا ہوں کہ ذرا بھی غم فردا نہ کروں جس کی تخلیق ہے وہ جانے مجھے کیا لینا زندگی کے لیے اب کوئی بھی سودا نہ کروں
جسے ہم موم کا گھر جانتے تھے وہ نکلا سر بسر پتھر ہی پتھر گئے تھے جسم و جاں تک وارنے ہم اٹھا لائے ہیں آنکھوں میں سمندر
پیچھا چھڑا سکے نہ کبھی بندگی سے ہم نیکی سے بندھ گئے کبھی گاہے بدی سے ہم اے ہادیٔ عظیم فقط تیرا واسطہ باندھے ہوئے ہیں ساری امیدیں تجھی سے ہم
یوں تو کہنے کو بہت راہ میں غم خوار ملے زیست کے موڑ پہ آزار ہی آزار ملے مجھ کو دیوانہ کہا کرتے تھے جو عرصے سے آج خود چاک گریباں سر بازار ملے
اردو مشاعرے میں ملا ایک نوجوان بولا کہ ڈالروں کا سنبھالا ہوا ہوں میں اب مادری زبان سے نسبت نہیں مجھے بے بی سٹر کی گود کا پالا ہوا میں
آئی جو آن لائن ستر برس کی عورت مجھ جیسے اہل دل کو وہ بیٹ کر رہی تھی بن کے وہ ٹین اجر بولی تھی آئی لو یو میں چیٹ کر رہا تھا وہ چیٹ کر رہی تھی
دیار غیر میں جس دن چلی گئی بجلی بلیک ہو گئی گھر کی فضا اندھیرے میں ہر ایک فرد تو گرمی میں سو گیا لیکن چچی کو ڈھونڈ رہے تھے چچا اندھیرے میں
کبھی وطن میں ہمارا بھی آب و دانہ تھا یہ تب کی بات ہے جب ملک میں خزانہ تھا تمام بینک لٹیروں نے مل کے لوٹ لیے وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا