پرفشاں ہے تھکا تھکا سا خیال
پرفشاں ہے تھکا تھکا سا خیال بے کراں وسعتوں کے گھیرے میں جیسے اک فاختہ ہو گرم سفر شام کے ملگجے اندھیرے میں
پرفشاں ہے تھکا تھکا سا خیال بے کراں وسعتوں کے گھیرے میں جیسے اک فاختہ ہو گرم سفر شام کے ملگجے اندھیرے میں
آرزو ہے کہ اب مری ہستی بحر الفت میں غرق ہو جائے بے نیاز غم جہاں ہو کر تیری رنگینیوں میں کھو جائے
دن یہ بدلے گا رات بدلے گی گردش کائنات بدلے گی کہہ رہے ہیں یہ وقت کے تیور غم زدوں کی حیات بدلے گی
اپنی فطرت پہ ناز ہے مجھ کو بھول سکتے نہیں یہ اہل نظر خوب ہنستا ہوں مسکراتا ہوں دوستوں کی ستم ظریفی پر
وصل بھی دیکھا جدائی دیکھ لی حق نے جو صورت دکھائی دیکھ لی دل کے آئینے میں ہے تصویر یار جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
دیکھ مجھے طبیب آج پوچھا جو حالت مزاج کہنے لگا کہ لا علاج بندہ ہوں میں خدا نہیں چہرہ ترا بھی زرد ہے آہ لبوں پہ سرد ہے یہ تو میاں وہ درد ہے جس کی کوئی دوا نہیں
کنج کاوی جو کی سینے میں غم ہجراں نے اس دفینے ستی اقسام جواہر نکلا اشک تر لخت جگر قطرۂ خوں پارۂ دل ایک سے ایک رقم آپ سے بہتر نکلا
ہم یہ کہتے تھے کہ احمق ہو جو دل کو دیوے دیکھیں تو چھین لے دل ہم سے وہ کون ایسا ہے سو اب اک شخص کے ہے زیر قدم سر اپنا سچ کہا ہے کہ بڑے بول کا سر نیچا ہے
نامۂ درد کو مرے لے کر پاس جب یار کے گیا قاصد پڑھ کے کہنے لگا وہ سرنامہ کون سا یار ہے بتا قاصد جس نے بھیجا ہے تیرے ہاتھ یہ خط میں نہیں اس سے آشنا قاصد
تازہ غموں نے پچھلے غموں کو بھلا دیا جب نقش دوسرا بنا پہلا مٹا دیا دل پر کسی ملال کا ہوتا نہیں اثر خورشیدؔ ہم کو درد نے پتھر بنا دیا