ہے کچھ ایسی ہی برہمی اے دل
ہے کچھ ایسی ہی برہمی اے دل غم ہستی کے پائمالوں میں دوستوں کے ہنسی اڑانے پر الجھنیں جس طرح خیالوں میں
ہے کچھ ایسی ہی برہمی اے دل غم ہستی کے پائمالوں میں دوستوں کے ہنسی اڑانے پر الجھنیں جس طرح خیالوں میں
وہ اندھیرے جو منجمد سے تھے دفعتاً آج جگمگائے ہیں نور برسے نہ کیوں شبستاں میں ایک مدت میں آپ آئے ہیں
زندگی اس طرح بھٹکتی ہے درد و غم کی اداس راہوں میں جیسے ناکامیوں کی تصویریں ایک مجبور کی نگاہوں میں
حال دل تم سے آج کہتا ہوں زخم کھاتا ہوں درد سہتا ہوں موت سے ہمکنار ہو کر بھی زندگی کے قریب رہتا ہوں
ایک مدت ستم اٹھانے پر جب نظر کامیاب ہوتی ہے حسن رنگیں کی وہ پشیمانی آپ اپنا جواب ہوتی ہے
شوق و ارماں کی بے قراری کو جس نظر سے سکون ہوتا ہے بعض اوقات اس نظر سے ہی آرزوؤں کا خون ہوتا ہے
نا مرادی کے تند طوفاں میں مل گئے آج کچھ سہارے سے ان کے جلووں میں کھو گئیں نظریں کشتیاں جا لگیں کنارے سے
پھر کسی بات کا خیال آیا اک حسیں رات کا خیال آیا جس نے سرشار کر دیا دل کو اس ملاقات کا خیال آیا
تیری فطرت سکوں پسندی ہے شور طوفاں سے بد حواس نہ ہو کہہ رہا ہے سکوت ساحل کا اے غم زندگی اداس نہ ہو
اور کچھ دیر ابھی ٹھہر جاؤ گرچہ نور سحر جھلکتا ہے یوں تو بچھڑے ہو بارہا لیکن جانے کیوں آج دل دھڑکتا ہے