طرز حیات
تیری نظر میں وسعت کون و مکاں رہے بالا تعینات سے تیرا جہاں رہے شبنم سا صاف ہو تری فطرت کا آئینہ کرنوں سے آفتاب کی تو ہم زباں رہے ہر بول تیرا نغمۂ رنگیں سے ہو سوا تیری تمام زندگی اک داستاں رہے لہرا رہا ہے دل میں ترے چشمۂ حیات تجھ پر ہزار حیف کہ تشنہ دہاں رہے جب اشک ہائے خوں کو گہر ...