طرز حیات

تیری نظر میں وسعت کون و مکاں رہے
بالا تعینات سے تیرا جہاں رہے
شبنم سا صاف ہو تری فطرت کا آئینہ
کرنوں سے آفتاب کی تو ہم زباں رہے
ہر بول تیرا نغمۂ رنگیں سے ہو سوا
تیری تمام زندگی اک داستاں رہے
لہرا رہا ہے دل میں ترے چشمۂ حیات
تجھ پر ہزار حیف کہ تشنہ دہاں رہے
جب اشک ہائے خوں کو گہر تو بنا سکے
پھر کیوں تری نگاہ سوئے آسماں رہے
فرصت تری عزیز ہے منزل کی راہ لے
کب تک شکایت ستم آسماں رہے
رسم و قیود کا کبھی پابند تو نہ رہ
پروانہ کر جو تجھ سے جہاں سرگراں رہے
ہمت یہ ہے کہ تیری جدا کائنات ہو
کیوں تجھ کو نازش حشم رفتگاں رہے
ہو عمر مختصر تری پر شمع کی طرح
جب تک رہے تو رونق بزم جہاں رہے