پھولوں کی بہار
چلتے چلتے تھک گیا ہوں کلفتوں سے چور ہوں
چین سے محروم ہوں آرام سے میں دور ہوں
باغ میں آنے دے مالی ہے قسم گل کی تجھے
دے رہی ہے ڈالی ڈالی دید کی دعوت مجھے
پھول کھلتے ہیں بسنتی نشہ آور ہے فضا
گود میں اپنے جھلاتی ہے انہیں باد صبا
باغ کی آنکھیں ہیں یہ یا ہیں ستارے ضو فشاں
چھوٹتے ہیں رنگ و بو کے گویا فوارے یہاں
رنگتیں دیکھوں گا ان کی اور لوٹوں گا بہار
لوگ جاتے ہیں ادھر سے پر نہیں کرتے نظر
پھول کیا کیا ہیں کھلے ہوتی نہیں ان کو خبر
کام میں بھولے ہوئے ہیں سارے دنیا کے مزے
دل ہی دل میں گھٹ کے رہ جاتے ہیں ان کے حوصلے
پر میں کھیلوں گا گلوں سے اور لوٹوں گا بہار
ان کے حسن روح پرور سے سکوں پاتا ہے دل
جانے کیا چپکے ہی چپکے مجھ سے کہہ جاتا ہے دل
کس سے پیارے کی دلاتے ہیں یہ مجھ کو یاد اب
اور مجھے اپنا سمجھ کر میں بلاتے سب کے سب
غم بھلا دوں گا میں ان میں اور لوٹوں گا بہار
شاخ پر غنچے کھلیں گے اور کمھلا جائیں گے
ہنس ہنسا کر اک گھڑی کے بعد مرجھا جائیں گے
زندگی میں موت کا کیوں غم کریں کیوں دکھ یہیں
اس ریاض دہر میں جب تک رہیں ہنستے رہیں
ان سے سیکھوں گا میں ہنسنا اور لوٹوں گا بہار