شاعری

شگفتہ ہو کے بیٹھے تھے وہ اپنے بے قراروں میں

شگفتہ ہو کے بیٹھے تھے وہ اپنے بے قراروں میں تڑپ بجلی کی پیدا ہو گئی پھولوں کے ہاروں میں کیا اندھیر اپنے رنج نے ان کی کدورت نے بجھی شمع محبت ہائے دو دل کے غباروں میں شب فرقت کو زاہد سے سوا مر مر کے کاٹا ہے کرے مشہور ہم کو بھی خدا شب‌ زندہ داروں میں یہ کس نے کشتۂ تیغ تبسم کر دیا ...

مزید پڑھیے

واعظ شہر خدا ہے مجھے معلوم نہ تھا

واعظ شہر خدا ہے مجھے معلوم نہ تھا یہی بندے کی خطا ہے مجھے معلوم نہ تھا غم دوراں کا مداوا نہ ہوا پر نہ ہوا ہاتھ میں کس کے شفا ہے مجھے معلوم نہ تھا نغمۂ نے بھی نہ ہو بانگ بط مے بھی نہ ہو یہ بھی جینے کی ادا ہے مجھے معلوم نہ تھا میں سمجھتا تھا جسے ہیکل و محراب و کنشت میرا نقش کف پا ہے ...

مزید پڑھیے

یہ کیا طلسم ہے دنیا پہ بار گزری ہے

یہ کیا طلسم ہے دنیا پہ بار گزری ہے وہ زندگی جو سر رہ گزار گزری ہے گلوں کی گم شدگی سے سراغ ملتا ہے کہیں چمن سے نسیم بہار گزری ہے کہیں سحر کا اجالا ہوا ہے ہم نفسو کہ موج برق سر شاخسار گزری ہے رہا ہے یہ سر شوریدہ مثل شعلہ بلند اگرچہ مجھ پہ قیامت ہزار گزری ہے یہ حادثہ بھی ہوا ہے کہ ...

مزید پڑھیے

راس آنے لگی ہے خاموشی

راس آنے لگی ہے خاموشی دل کو بھانے لگی ہے خاموشی سلسلہ گفتگو کا ٹوٹ گیا آنے جانے لگی ہے خاموشی شور گویائی ہر طرف سن کر خوف کھانے لگی ہے خاموشی اہل دل چپ ہیں ماجرا کیا ہے دل جلانے لگی ہے خاموشی لا مکاں اور مکان کا رشتہ کیوں چھپانے لگی ہے خاموشی بولتے شہر ہنستے قریوں پر اب تو ...

مزید پڑھیے

سخن اک ناشنیدہ میں ندا ہونے سے پہلے تھا

سخن اک ناشنیدہ میں ندا ہونے سے پہلے تھا کہ جیسے حرف حق پنہاں صدا ہونے سے پہلے تھا ادھر فرعونیت کافی ہے تیری رو سیاہی کو ادھر تو بندۂ سرکش خدا ہونے سے پہلے تھا در توبہ کھلا ہے اب غلط ہے سوچنا تیرا بہت معصوم تو شاید سزا ہونے سے پہلے تھا مری سیرت کی خوشبو اب ہواؤں میں مہکتی ہے مگر ...

مزید پڑھیے

بڑھایا ہاتھ مگر کچھ صلہ نہ ہاتھ آیا

بڑھایا ہاتھ مگر کچھ صلہ نہ ہاتھ آیا کف تہی کے سفر میں گیا نہ ہاتھ آیا گرہ میں کھولتا کیسے خرد اسیروں کی کہ ڈور الجھی ہوئی تھی سرا نہ ہاتھ آیا یہ رسم خوب چلی ہے مرے زمانے میں کہ ہاتھ لگ گیا اچھا برا نہ ہاتھ آیا لو ہاتھوں ہاتھ لٹا ہے بہار کا خرمن خزاں تو خوش ہوئی جیسے خزانہ ہاتھ ...

مزید پڑھیے

ملمع کی فراوانی بہت ہے

ملمع کی فراوانی بہت ہے مگر ہر سمت ویرانی بہت ہے حقیقت ہے یہ اب اظہر من الشمس فروغ فتنہ سامانی بہت ہے فلک پر ہیں تصور کی کمندیں عمل پیرا تن آسانی بہت ہے نہیں ہے سایۂ دیوار سر پر غرور ظل سبحانی بہت ہے کہانی ہے یہ لیلائے خرد کی کہ یہ فتنوں کی دیوانی بہت ہے چراغ آبلہ پائی ہے ...

مزید پڑھیے

اب ایسی ناامیدی بھی نہیں ہے

اب ایسی ناامیدی بھی نہیں ہے بہار آئے گی پھر ہم کو یقیں ہے تغیر کو لگا کرتی ہیں صدیاں کرشمہ دو گھڑی کا یہ نہیں ہے نہ ہو پائے نہ ہوں گے فاصلے کم ازل سے یوں ہی گردش میں زمیں ہے یہی ہے رشتۂ تار نفس اب جو اک نشتر سا دل میں جاگزیں ہے وہی رہ رہ کے ہم سے پوچھتے ہیں بیاں جس بات کا آساں ...

مزید پڑھیے

دعا سلام سر رہ گزار کر لینا

دعا سلام سر رہ گزار کر لینا مگر ہر ایک پہ مت اعتبار کر لینا ادھر نہ بھول کے جانا ہوا جدھر کی چلے یہ دل پہ جبر سہی اختیار کر لینا ہیں آستینوں میں خنجر ذرا سنبھل کے میاں روا روی میں نہ قول و قرار کر لینا مرا خمیر ہے اپنے وطن کی مٹی سے مری خطاؤں میں یہ بھی شمار کر لینا خراب ہو چکی ...

مزید پڑھیے

کوئی ستارۂ شب یا غبار تھا وہ بھی

کوئی ستارۂ شب یا غبار تھا وہ بھی زمیں پہ ناز فلک کا شمار تھا وہ بھی میں ریزہ ریزہ زمیں پر مگر ورائے زمیں نمود پیرہن تار تار تھا وہ بھی سناں بدست جو آیا وہ دستۂ گل تھا جو لالہ رو تھا سو انبوہ خار تھا وہ بھی وہ پڑ گیا تھا مگر رنج ناگہانی میں گرہ کشا گلۂ ساز گار تھا وہ بھی اسی سے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 69 سے 4657