سخن اک ناشنیدہ میں ندا ہونے سے پہلے تھا

سخن اک ناشنیدہ میں ندا ہونے سے پہلے تھا
کہ جیسے حرف حق پنہاں صدا ہونے سے پہلے تھا


ادھر فرعونیت کافی ہے تیری رو سیاہی کو
ادھر تو بندۂ سرکش خدا ہونے سے پہلے تھا


در توبہ کھلا ہے اب غلط ہے سوچنا تیرا
بہت معصوم تو شاید سزا ہونے سے پہلے تھا


مری سیرت کی خوشبو اب ہواؤں میں مہکتی ہے
مگر میں عطر تنہائی صبا ہونے سے پہلے تھا


الہ اور الا کا عقیدہ عین ایماں ہے
مری رگ رگ میں یہ موجود لا ہونے سے پہلے تھا


عناصر متحد تھے جوہری ذرات یکجا تھے
سبھی کو انتظار کن خلا ہونے سے پہلے تھا