بڑھایا ہاتھ مگر کچھ صلہ نہ ہاتھ آیا
بڑھایا ہاتھ مگر کچھ صلہ نہ ہاتھ آیا
کف تہی کے سفر میں گیا نہ ہاتھ آیا
گرہ میں کھولتا کیسے خرد اسیروں کی
کہ ڈور الجھی ہوئی تھی سرا نہ ہاتھ آیا
یہ رسم خوب چلی ہے مرے زمانے میں
کہ ہاتھ لگ گیا اچھا برا نہ ہاتھ آیا
لو ہاتھوں ہاتھ لٹا ہے بہار کا خرمن
خزاں تو خوش ہوئی جیسے خزانہ ہاتھ آیا
میں اس کے سامنے خاموش کیا رہا کہ اسے
خطاب کرنے کا سب سے بہانہ ہاتھ آیا
سراب دیتا ہمیں کیا ہوس کے صحرا میں
سوائے مشت غبار ہوا نہ ہاتھ آیا
مجال ہے یہ کسی کی کوئی بشر یہ کہے
خدا خدا بھی کیا اور خدا نہ ہاتھ آیا