کوئی ستارۂ شب یا غبار تھا وہ بھی

کوئی ستارۂ شب یا غبار تھا وہ بھی
زمیں پہ ناز فلک کا شمار تھا وہ بھی


میں ریزہ ریزہ زمیں پر مگر ورائے زمیں
نمود پیرہن تار تار تھا وہ بھی


سناں بدست جو آیا وہ دستۂ گل تھا
جو لالہ رو تھا سو انبوہ خار تھا وہ بھی


وہ پڑ گیا تھا مگر رنج ناگہانی میں
گرہ کشا گلۂ ساز گار تھا وہ بھی


اسی سے خاک میں رعنائی تجمل ہے
زمیں پہ جھکتا ہوا کوہسار تھا وہ بھی


کسی پہ جم گئی چشم گریز پا آخر
عجیب لمحۂ بے اختیار تھا وہ بھی