راس آنے لگی ہے خاموشی

راس آنے لگی ہے خاموشی
دل کو بھانے لگی ہے خاموشی


سلسلہ گفتگو کا ٹوٹ گیا
آنے جانے لگی ہے خاموشی


شور گویائی ہر طرف سن کر
خوف کھانے لگی ہے خاموشی


اہل دل چپ ہیں ماجرا کیا ہے
دل جلانے لگی ہے خاموشی


لا مکاں اور مکان کا رشتہ
کیوں چھپانے لگی ہے خاموشی


بولتے شہر ہنستے قریوں پر
اب تو چھانے لگی ہے خاموشی


بن کے بیٹھے ہیں گونگے اب ان کو
آزمانے لگی ہے خاموشی


ایک چپ پر ہزار باتیں کیوں
اب بنانے لگی ہے خاموشی


خالی ذہنوں میں سانپ کی مانند
سرسرانے لگی ہے خاموشی


بے زبانی کا یہ تقاضا ہے
رنگ لانے لگی ہے خاموشی