دعا سلام سر رہ گزار کر لینا

دعا سلام سر رہ گزار کر لینا
مگر ہر ایک پہ مت اعتبار کر لینا


ادھر نہ بھول کے جانا ہوا جدھر کی چلے
یہ دل پہ جبر سہی اختیار کر لینا


ہیں آستینوں میں خنجر ذرا سنبھل کے میاں
روا روی میں نہ قول و قرار کر لینا


مرا خمیر ہے اپنے وطن کی مٹی سے
مری خطاؤں میں یہ بھی شمار کر لینا


خراب ہو چکی مانا رفاقتوں کی فضا
گلے لگا کے انہیں خوش گوار کر لینا


یہ وہ خزانہ ہے جس کا بدل نہیں کوئی
تعلقات کہن استوار کر لینا


جو گرد و پیش بڑھے زور کم عیاری کا
بلند اپنی انا کا حصار کر لینا


میں اب کے یاد کی خلعت پہن کے آؤں گا
یہ میرا وعدہ رہا انتظار کر لینا


نیا نہیں ہے تماشا یہ دلبروں کا سحرؔ
ہے ان کا کھیل دلوں کا شکار کر لینا