اب ایسی ناامیدی بھی نہیں ہے

اب ایسی ناامیدی بھی نہیں ہے
بہار آئے گی پھر ہم کو یقیں ہے


تغیر کو لگا کرتی ہیں صدیاں
کرشمہ دو گھڑی کا یہ نہیں ہے


نہ ہو پائے نہ ہوں گے فاصلے کم
ازل سے یوں ہی گردش میں زمیں ہے


یہی ہے رشتۂ تار نفس اب
جو اک نشتر سا دل میں جاگزیں ہے


وہی رہ رہ کے ہم سے پوچھتے ہیں
بیاں جس بات کا آساں نہیں ہے


نہ پوچھو ہم سے موسم کی حقیقت
مزاج یار کی چین جبیں ہے


ہم اب کے ختم سمجھے تھے کہانی
دل پر عزم تجھ کو آفریں ہے


چلو اک دن سحرؔ اس بت سے مل آئیں
بہت دن سے اسے دیکھا نہیں ہے