شاعری

غزل کو اپنی میں نے سچ کے بام و در پہ رکھا ہے

غزل کو اپنی میں نے سچ کے بام و در پہ رکھا ہے مرے شعروں کو اس نے طنز کے خنجر پہ رکھا ہے مناتا ہوں میں اکثر رت جگے راتوں کے آنگن میں شکستہ خواب کا ٹکڑا مرے بستر پہ رکھا ہے بس اتنا سوچ کر تعبیر کی صورت کوئی نکلے پرانے خواب کو میں نے نئے منظر پہ رکھا ہے ستم کی دھوپ سے بچنے کی خاطر ...

مزید پڑھیے

عشق میں کچھ بھی ہو سکتا ہے

عشق میں کچھ بھی ہو سکتا ہے یہ طوفان ڈبو سکتا ہے جب منزل دھندلا جائے تو رستہ کھوٹا ہو سکتا ہے یادوں کی چادر کو اوڑھے کوئی کیسے سو سکتا ہے آج ملا تو پوچھ رہا تھا کیا اب بھی کچھ ہو سکتا ہے پھول جھڑیں جس کے ہونٹوں سے وہ بھی خار چبھو سکتا ہے میرے دل کی وسعت دیکھو کیا کیا درد سمو ...

مزید پڑھیے

وہ کہتا ہے کہ اس کے واسطے خنجر ضروری ہے

وہ کہتا ہے کہ اس کے واسطے خنجر ضروری ہے نظر کے سامنے اک خونچکاں منظر ضروری ہے بہت سی الجھنیں ہیں آج کل اونچے مکانوں میں سکوں کے واسطے چھوٹا سا مجھ کو گھر ضروری ہے بھروسہ قوت بازو پہ اپنی جو نہیں کرتا محاذ جنگ میں اس کے لئے لشکر ضروری ہے یہی ہے فرق اس کے اور میرے درمیاں ...

مزید پڑھیے

محرومیت پہ کس لئے کرتے ہو تم قلق

محرومیت پہ کس لئے کرتے ہو تم قلق اب بڑھ کے چھین لینا ہے ظالم سے اپنا حق میرے خلاف کہتا ہے جو کچھ بھی وہ کبھی ہر لفظ اس کا ہوتا ہے خود اس پہ منطبق سادہ مزاج رکھتی ہے میری ہر اک غزل ہوتا نہیں ہے شعروں میں اک لفظ بھی ادق وہ مسکرا اٹھے تو مجھے اس طرح لگا چہرے پہ جیسے آ گئی رنگینئ ...

مزید پڑھیے

ہمیشہ جھوٹ جو کہتا رہا سچا نظر آیا

ہمیشہ جھوٹ جو کہتا رہا سچا نظر آیا برائی جس کی فطرت ہے وہی اچھا نظر آیا ہمارے دور میں قدروں کی پامالی ہوئی ایسی بزرگوں کے مقابل آج کا بچہ نظر آیا وہ دہشت گرد کے کرتوت تھے لیکن زمانے کو دھماکوں کے پس منظر مرا چہرہ نظر آیا سجا کر پیاس ہونٹوں پر قریب آیا جو میں اس کے وہ دریا بھی ...

مزید پڑھیے

نہ مل سکی ہمیں منزل وفا کی راہوں میں

نہ مل سکی ہمیں منزل وفا کی راہوں میں ہوا نصیب نہ رہنا تری پناہوں میں وہ جب ملا تو بظاہر تھا مطمئن لیکن مچل رہی تھیں کئی حسرتیں نگاہوں میں سکون گھر کا مجھے راس ہی نہیں آیا ہوں ابتدا سے ہی آوارگی کی بانہوں میں مرے مزاج نے چھوڑا نہیں کہیں کا مجھے ہزار انگلیاں اٹھتی ہیں اب تو ...

مزید پڑھیے

بہاروں کے موسم کو کیا ہو گیا ہے

بہاروں کے موسم کو کیا ہو گیا ہے خزاں کا چلن عام سا ہو گیا ہے کہیں پر زمیں خون میں تر بہ تر ہے کہیں آسماں سرخ سا ہو گیا ہے ہر اک سمت ہے ظلمتوں کا بسیرا اجالا تو جیسے خفا ہو گیا ہے سلگتی ہوئی نفرتوں سے بھرے دل محبت کا جذبہ ہوا ہو گیا ہے مفادات اور مصلحت خود پرستی فسوں کیسا جگ میں ...

مزید پڑھیے

اس کی رسوائی میں کچھ ہاتھ مرا ہے تو سہی

اس کی رسوائی میں کچھ ہاتھ مرا ہے تو سہی کچھ نہ کچھ مجھ میں بھی انداز جفا ہے تو سہی رات فرقت کی شب تار سی لگتی ہے تو کیا ایک امید کا آنکھوں میں دیا ہے تو سہی اجنبیت کا وہ احساس دلاتا ہے مگر اب بھی گفتار میں اک رنگ وفا ہے تو سہی ایک مدت سے جو خاموش تماشائی ہیں ان نگاہوں میں کوئی ...

مزید پڑھیے

دل صد چاک میں کیا رہ گیا ہے

دل صد چاک میں کیا رہ گیا ہے لہو بہہ بہہ کے آدھا رہ گیا ہے جہاں بانی رہا تھا جس کا شیوہ وہ بالکل بے سہارا رہ گیا ہے بنا بیٹھے ہیں کتنے بت جہاں میں جو سچا ہے وہ تنہا رہ گیا ہے عداوت کے یہ کس نے بیج بوئے ہر اک انساں اکیلا رہ گیا ہے تجھے سعدیؔ تھی دریا کی بشارت مگر آنکھوں میں صحرا رہ ...

مزید پڑھیے

دل کی بات زباں پر لاؤ پھر دیکھو

دل کی بات زباں پر لاؤ پھر دیکھو ہم کو اپنا حال سناؤ پھر دیکھو ہم تیری باتوں میں بھی آ سکتے ہیں سچ میں تھوڑا جھوٹ ملاؤ پھر دیکھو سورج چاند ستارے توڑ کے لا دوں گا تھوڑی سی امید دلاؤ پھر دیکھو وحشت ہو کا عالم سناٹا اور غم تم اپنے اطراف سجاؤ پھر دیکھو تم نے اس کا کہنا یوں ہی مان ...

مزید پڑھیے
صفحہ 1101 سے 4657