غزل کو اپنی میں نے سچ کے بام و در پہ رکھا ہے
غزل کو اپنی میں نے سچ کے بام و در پہ رکھا ہے مرے شعروں کو اس نے طنز کے خنجر پہ رکھا ہے مناتا ہوں میں اکثر رت جگے راتوں کے آنگن میں شکستہ خواب کا ٹکڑا مرے بستر پہ رکھا ہے بس اتنا سوچ کر تعبیر کی صورت کوئی نکلے پرانے خواب کو میں نے نئے منظر پہ رکھا ہے ستم کی دھوپ سے بچنے کی خاطر ...