عشق میں کچھ بھی ہو سکتا ہے
عشق میں کچھ بھی ہو سکتا ہے
یہ طوفان ڈبو سکتا ہے
جب منزل دھندلا جائے تو
رستہ کھوٹا ہو سکتا ہے
یادوں کی چادر کو اوڑھے
کوئی کیسے سو سکتا ہے
آج ملا تو پوچھ رہا تھا
کیا اب بھی کچھ ہو سکتا ہے
پھول جھڑیں جس کے ہونٹوں سے
وہ بھی خار چبھو سکتا ہے
میرے دل کی وسعت دیکھو
کیا کیا درد سمو سکتا ہے
آنسو ایک ندامت والا
ہر لغزش کو دھو سکتا ہے
اس نے کن کہنا ہے سعدیؔ
سوچو کیا کیا ہو سکتا ہے