وہ کہتا ہے کہ اس کے واسطے خنجر ضروری ہے

وہ کہتا ہے کہ اس کے واسطے خنجر ضروری ہے
نظر کے سامنے اک خونچکاں منظر ضروری ہے


بہت سی الجھنیں ہیں آج کل اونچے مکانوں میں
سکوں کے واسطے چھوٹا سا مجھ کو گھر ضروری ہے


بھروسہ قوت بازو پہ اپنی جو نہیں کرتا
محاذ جنگ میں اس کے لئے لشکر ضروری ہے


یہی ہے فرق اس کے اور میرے درمیاں حائل
مجھے ہے پھول کی چاہت اسے پتھر ضروری ہے


ابھی تو پر نہیں نکلے میاں پھر بھی اچھلتے ہو
بلندی پر اڑانوں کے لئے شہ پر ضروری ہے


سعیدؔ اس آستیں کے سانپ سے غافل نہیں رہنا
اسے قابو میں کرنے کے لئے منتر ضروری ہے