ہمیشہ جھوٹ جو کہتا رہا سچا نظر آیا
ہمیشہ جھوٹ جو کہتا رہا سچا نظر آیا
برائی جس کی فطرت ہے وہی اچھا نظر آیا
ہمارے دور میں قدروں کی پامالی ہوئی ایسی
بزرگوں کے مقابل آج کا بچہ نظر آیا
وہ دہشت گرد کے کرتوت تھے لیکن زمانے کو
دھماکوں کے پس منظر مرا چہرہ نظر آیا
سجا کر پیاس ہونٹوں پر قریب آیا جو میں اس کے
وہ دریا بھی چمکتی ریت کا صحرا نظر آیا
تھیں جس کے دم سے قائم انجمن کی رونقیں ساری
مجھے وہ شخص اپنی ذات میں تنہا نظر آیا
سعیدؔ اس کی غزل یوں تو بہت ہی خوب صورت تھی
مگر کچھ شعر تھے جن میں مجھے سرقہ نظر آیا