اس کی رسوائی میں کچھ ہاتھ مرا ہے تو سہی

اس کی رسوائی میں کچھ ہاتھ مرا ہے تو سہی
کچھ نہ کچھ مجھ میں بھی انداز جفا ہے تو سہی


رات فرقت کی شب تار سی لگتی ہے تو کیا
ایک امید کا آنکھوں میں دیا ہے تو سہی


اجنبیت کا وہ احساس دلاتا ہے مگر
اب بھی گفتار میں اک رنگ وفا ہے تو سہی


ایک مدت سے جو خاموش تماشائی ہیں
ان نگاہوں میں کوئی خواب سجا ہے تو سہی


پیش خیمہ کسی طوفان کا ہو سکتا ہے
اس خموشی میں کوئی راز چھپا ہے تو سہی