محرومیت پہ کس لئے کرتے ہو تم قلق
محرومیت پہ کس لئے کرتے ہو تم قلق
اب بڑھ کے چھین لینا ہے ظالم سے اپنا حق
میرے خلاف کہتا ہے جو کچھ بھی وہ کبھی
ہر لفظ اس کا ہوتا ہے خود اس پہ منطبق
سادہ مزاج رکھتی ہے میری ہر اک غزل
ہوتا نہیں ہے شعروں میں اک لفظ بھی ادق
وہ مسکرا اٹھے تو مجھے اس طرح لگا
چہرے پہ جیسے آ گئی رنگینئ شفق
شعلے تعصبات کے بھڑکا رہے ہیں وہ
نفرت کی پاٹھ شالا میں لیتے ہیں جو سبق
لکھا ہے ان کا نام بڑے احترام سے
اپنی بیاض دل کا ہے روشن ہر اک ورق
اعجاز یہ بھی دیکھا ہے اہل جہان نے
انگشت کے اشارے قمر ہو گیا تھا شق
آئینہ اپنے شعر کو کرنے لگا ہوں میں
چہرہ مرے حریف کا ہونے لگا ہے فق
پھر دھوپ سے پڑے گا مجھے واسطہ سعیدؔ
میری نظر کے آگے ہے صحرائے لق و دق