پاکستانی طالبہ نے انگریزی کا نیا لفظ "گھڑ" لیا: oblivionaire

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے زیر اہتمام انگریزی کے نئے الفاظ تخلیق کرنے کے مقابلے میں سولہ برس کی ایک  پاکستانی طالبہ روحانہ خٹک نے انگریزی لفظ oblivionaire  تخلیق کرکے یہ اعزاز اپنے نام کرلیا۔

امریکی اخبار ہر ماہ دنیا بھر کے طلبا کو انگریزی کے نئے الفاظ تخلیق کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس سرگرمی کا مقصد یہ ہے کہ انگریزی زبان میں نئے اور جدید الفاظ کا اضافہ کیا جائے جو دل چسپ  بھی ہوں اور معنی خیز بھی۔ اس مقابلے میں شرکت کے لیے چند شرائط وضع کی گئی ہیں:

1۔ تخلیق کردہ لفظ پہلے سے موجود نہ ہو، نہ کسی لغت/ڈکشنری میں اور نہ ہی وہ عوامی استعمال میں ہو۔

2۔ اس نئے لفظ کی تعریف بیان کی جائے، اس کو استعمال کرتے ہوئے ایک بامعنی جملہ بنائے جائے اور اس متعلق مختصر وضاحت یا تشریح بھی بیان کی جائے۔

اسلام آباد کی شہری روحانہ خٹک نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی جانب منعقد کیے گئے "انوینٹ اے ورڈ" (نیا لفظ تخلیق کی جیے) چیلنج کے جواب میں انگریزی زبان کا نیا لفظ اوبلیویونیئر (oblivionaire) تخلیق کیا ہے۔

یہ نیا لفظ ایک اسم ہے اور انگریزی زبان کے دو الفاظ oblivious (غافل ، فراموش کنندہ) اور billionaire (ارب پتی) سے اخذ کیا گیا ہے۔اوبلیویونیئر (oblivionaire) کا مطلب ہے ایسا ارب پتی یعنی امیر ترین آدمی جو کہ اپنی دولت کے تکبر اور ہوس میں اندھا ہوکر سماج میں تفاوت اور عدم مساوات سے بے پروا ہوجاتا ہے۔ اس کے اندر ہمدردی، سخاوت، احساسِ مروت اور رحم دلی کا قتل ہوچکا ہوتا ہے۔

روحانہ نے اس لفظ کی تخلیق کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ دنیا کے دس امیر ترین افراد نے کرونا وبا کے پہلے دو برسوں میں اپنی دولت کو دوگنا کرکے ڈیڑھ ٹریلین تک پہنچا دیا۔ جبکہ اسی عرصے میں دنیا کی ننانوے فیصد آبادی معاشی بحران کا شکار رہی۔ 160 ملین سے زائد افراد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ایک طرف لاکھوں بچے بھوک سے مررہے ہیں جبکہ دوسری طرف گنتی کے چند افراد پاس ان کی ضرورریات سے کہیں زیادہ رقم موجود ہے اور وہ اس سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔

روحانہ کا کہنا ہے کہ اس افسوس ناک عدم توازن کو بیان کرنے اور سوچنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اسی لیے وہ چاہتی تھی کہ ایسے انسانیت سے عاری لوگوں کو ایک ایسا نام دیا جائے جو ان کی بے حسی اور عیاشی میں اندھے پن کو واضح کرے۔

یہ اعزاز پر امریکہ میں پاکستانی سفر مسعود خان نے روحانہ خٹک کو مبارک باد دی۔ یہ خبر پاکستان کے لیے نہ صرف خوشی کا باعث ہے بلکہ اس سے یہ بھی اندازہ خوب لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔۔۔بس ایک تھپکی، شاباش کے چند لفظ اور اعتراف کا حوصلہ ہونا چاہیے۔

اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہر تعلیم طاہر جاوید (بانی پاکستانی تنظیم اساتذہ برائے تدریس اردو) کہا کہ

کسی نئے لفظ کو "گھڑنا"  یا اختراع کرنا  زبانوں کی توسیع کا ایک اہم ذریعہ ہے۔  انگریزی کی لغات میں جب  الفاظ کی تاریخ ( etymology )  کے بارے میں پڑھتے ہیں تو بہت سے الفاظ کے بارے میں پتا چلتا ہے کہ کسی نہ کسی فرد واحد نے تجرباتی طور پر اپنے "گھڑے" ہوئے لفظ کو استعمال کیا۔ اور رفتہ رفتہ اس نئے لفظ نے قبولیت عامہ حاصل کی۔

مثلا" lunch  اور  breakfast کو ملا کر brunch بنا دیا گیا۔ انگریزی الفاظ کی ایک بہت بڑی تعداد ( سینکڑوں) مختلف شخصیات یا مقامات کے نام پر بنائے گئے۔ مثلا" boycott,  sadism, masochism,   diesel, cashmere, hamburger,  tamarind,  وغیرہ  یہ محض چند مثالیں ہیں جو فوری طور پر ذہن میں آئیں۔

اسی طرح الفاظ بنانے کا قدیم ترین طریقہ ( onomatopoeia) صوتی الفاظ ہے۔   یعنی وہ الفاظ جو دراصل کسی نہ کسی آواز کی بنیاد پر بن گئے۔  مثلا" چوٹ لگنے پر فطری طور پر " آہ" کی آواز نکلتی ہے۔  ہنسنے پر "قہہ قہہ" جیسی آواز نکلتی ہے۔ (انگریزی کا لفظ cachinate  بھی یہیں سے نکلا ہے)

چھینکتے وقت "چھ" کی آواز ، اور کھانستے وقت "کھ" کی آوازیں قدرتی طور پر نکلتی ہیں۔  پھونکنے کے لیے "تھ" سے کام نہیں چلے گا۔ اور "پھ"  کی آواز سے آپ تھوک نہیں سکتے۔  اور بہت بڑی تعداد الفاظ کی ہے جو جانوروں، پرندوں، اور حشرات الارض کی آوازوں کی نقل اتار کر بنائے گئے۔  مثلا" کائیں کائیں، ککڑوں کو،  ٹیں ٹیں، کوک،  میاوں، بھن بھن۔  انسانوں کا بڑبڑانا،  گنگنانا،  ہکلانا،  سسکیاں بھرنا، وغیرہ بھی صوتی الفاظ کہلائیں گے۔ ( *بڑبڑانا میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا تعلق انگریزی کے الفاظ barbarians  اور barbaric  سے بنتا ہے۔  یورپ کی مہذب اقوام مثلا" رومی قوم  پر جب شمالی یورپ کے قبائل نے تواتر سے حملے کیے تو رومیوں نے ان کو  barbarians  اس وجہ سے کہا کہ ان کی زبانیں رومیوں کے نزدیک  بڑبڑا نے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ یعنی ایک غیر مہذب قوم۔

اگرچہ یہ خبر انگریزی الفاظ کی تخلیق یا اختراع سے متعلق ہے لیکن اسی اصول پر اردو زبان میں بھی نئے الفاظ کی تخلیق کی سرگرمی کی  کوشش کرنی چاہیے۔ اردو تدریس میں اس سرگرمی کو شامل کیا جائے۔ نئے الفاظ تخلق کرنے والے طلبا کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہیے۔

متعلقہ عنوانات