یادش بخیریا: ماضی سے ابھریں وہ زندہ تصویریں

شور۔۔۔ ہنگامہ۔۔۔افراتفری ۔۔۔ بھاگم بھاگ۔۔۔ایک بے ربط، بے ضبط اور بے ہنگم طوفان سا برپا ہے ہر جگہ۔ چوک چوراہوں اورگلیوں بازاروں میں ایک ہجوم ہے۔۔۔ اک بھیڑ ہے جو یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں بھاگتی دوڑتی نظر آتی ہے ۔ گویا:

خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں

 شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح

(کلیم عثمانی)

پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا جو آگہی، خبررسانی اور رائے عامہ کے ابلاغ کے ذرائع کے طور پر وجود میں آئے تھے ، اب فکری انتشار اور ذہنی دباؤ کے ٹرانسمیشن اسٹیشن بن کر رہ گئے۔ گویا آرام، سکون اور چین دور حاضر میں اجناس ناپید کی صورت اختیار کر کے رہ گئے ہیں۔

ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے زیادہ ہنگامہ خیز اور پر آشوب ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی رک کر رفتگاں پر نظر دوڑائی جاتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے تازہ ہوا کا جھونکا ہمیں چھو کر گزر گیا ہو۔ بیتے لمحوں اور بھولے بسرے لوگوں کی یاد ہمارے لئے راحت جاں کا سامان بنتی ہے ۔

یعنی:

رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی

 جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے

 جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم

 جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے

(فیض احمد فیض)

کچھ تو ہے یاد ماضی میں۔۔۔  جو ہر انسان حال سے گریزاں اور ماضی کی طرف مائل رہتا ہے۔ بقول ناز:

مٹا مٹا سا تصور ہے ناز ماضی کا

حیات نو ہے، اب اس عمرِ رائیگاں سے گریز

اور اسی ماضی اور حال کی کشاکش میں کبھی کبھی انسان خود کو جان ایلیا کی بیان کردہ اس کیفیت سے دوچار پاتا ہے :

اک عجب آمد و شد ہے کہ نہ ماضی ہے نہ حال

جونؔ برپا کئی نسلوں کا سفر ہے مجھ میں

یوں بھی نہیں کہ ماضی کی یاد انسان کے لیے ہمیشہ خوش گوار احساسات لے کر ہی آئے۔ کبھی کبھی  یادیں آہوں، اشکوں اور نالوں کا کارواں بھی ساتھ لیے ہوئے ہوتی ہیں اور انسان یاد ماضی سے سوال ہی  کرتا رہ جاتا ہے کہ:

یاد ماضی یہ کیا کیا تو نے

 ہنستے ہنستے رولا دیا تو نے

(نظر برنی )

لیکن اس کے باوجود انسان نہ جانے کیوں سدا خود کو ان یادوں سے وابستہ رکھنا چاہتا ہے۔۔۔ ان کے عشق میں مبتلا رہتا ہے۔ بقول اختر انصاری :

وہ ماضی جو ہے ایک مجموعہ اشکوں اور آہوں کا

نہ جانے مجھ کو اس ماضی سے کیوں اتنی محبت ہے

آئیے! ہم وہ وجہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں، جو دل کو ہمہ وقت ماضی کی محبت میں گرفتار رکھتی ہے ۔

علم نفسیات کی رو سے اس کیفیت کو ناسٹیلجیا کہا جاتا ہے۔ نفسیات دان اسے نفسیاتی مرض گردانتے ہیں اور اس کے متعلق ان کا خیال ہے کہ یہ ایسا مرض ہے جو مریض کو ماضی کی کربناک یادوں میں مبتلا کر کے انہیں اس کے حال میں تلاش کرنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔اس کیفیت میں انسان ماضی کی یادوں میں، خواہ وہ خوشگوار ہوں یا ناخوشگوار، وقت گزاری کرنا پسند کرتا ہے ۔ اس خواہش کے پس پردہ حال سے فرار کی آرزو بھی کارفرما ہوسکتی ہے۔

 ناسٹیلجیا یونانی زبان کا لفظ ہے جو دو الفاظ  نوٹوس (Notos) اور ایلگوس (Algos) سے مل کر بنا ہے۔اول الذکر لفظ کا مطلب ہے گھر کو واپسی۔۔۔ اور ثانی الذکر سے مراد کرب اور درد ہے۔ ناسٹیلجیا کی کیفیت زیادہ تر گھر سے دور پردیس میں بسنے والوں میں پائی جاتی ہے۔ پردیس میں رہنے والے اکثر اس کرب اور درد سے گزرتے ہیں جس کی وجہ وطن سے فطری محبت ہے۔

ویکیپیڈیا نوسٹیلجیا کو یوں بیان کرتا ہے :

"Nostalgia is the good feeling you get when you remember things from your past. When you kind of sit back and smile and think to yourself. Wow that was fun."

ایک مغربی ادیب لیش(Lash) نے ناسٹلجیا کو ایک دائمی آگ کا شعلہ قرار دیا ہے ، جو تسلسل سے سلگتا رہتا ہے۔۔۔ جس کی نادیدہ اذیت اور تپش انسان کو بھسم کر دیتی ہے ۔

ناسٹیلجیا کی نیچر اور وجوہات کے حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ :

 یہ ایک فطری جذبہ ہے ۔ بعض محققین اسے مثبت مانتے ہیں۔

  نفسیات کی اصطلاح میں یہ ایک مرض ہے جو گھر سے دوری کی وجہ سے پروان چڑھتا ہے

 ناسٹلجیا کی ایک وجہ لمحہ موجود سے فرار کی خواہش بھی ہو سکتی ہے ۔

نامانوس ماحول میں مانوس افراد، مقامات اور واقعات کا یاد آنا دل کے لئے آسودگی کا سبب ہوتا ہے ۔

ادبی نقطہ نظر سے یہ ایک مثبت کیفیت ہے جو لکھنے والوں کے لیے تخلیق کے دریچے کھول دیتی ہے ۔

آخر میں نوسٹیلجیا کے بارے میں مشتاق احمد یوسفی صاحب کا ایک شگفتہ سا قول (انھوں نے نوسٹیلجیا کا ترجمہ یادش بخیریا کیا):

"ہمارا عقیدہ ہے کہ جسےماضی یاد نہیں رہتا اس کی زندگی میں شاید کبھی کچھ ہوا ہی نہیں ۔۔۔ لیکن جو اپنے ماضی کو یاد ہی نہیں کرنا چاہتا وہ یقیناً (کوئی) لوفر رہا ہوگا"

متعلقہ عنوانات