سیلاب سے متاثرہ کن علاقوں میں امداد پہنچانا ضروری ہے؟

حالیہ سیلاب میں جہاں تباہی و بربادی ملک کے تین کروڑ انسانوں کا مقدر ہوچکی ہے، وہیں انسانی عزم و ہمت کی داستانیں بھی ایک بار پھر دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ شہروں میں رہنے والے اور سہولت کی زندگی گزارنے والے ہمارے دوست اور بھائی اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے کمر بستہ ہیں اور کہیں انفرادی، کہیں اجتماعی انداز میں ان لٹے پٹے لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

عام لوگوں کو اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ بڑی سڑکوں تک ہی پہنچ پاتے ہیں اور وہیں راشن وغیرہ تقسیم کرکے فارغ ہوجاتے ہیں، حالانکہ بہت سے ضرورت مند ان سڑکوں تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔کوشش کی جانی چاہیے ایسے علاقوں میں پہنچا جائے ، جہاں پہنچ مشکل ہے اور لوگ بے یارو مددگار کسی مسیحا کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔

کہاں جائیں، کن علاقوں میں پہنچنا ضروری ہے؟

2010 کے سیلاب کے برعکس اس بار کم و بیش ملک کے ہر حصے میں تباہی ہوئی ہے۔ جون کے اواخر سے ہی سندھ اور بلوچستان کے اکثر علاقے شدید بارشوں سے متاثر ہونا شروع ہوچکے تھے اور ان علاقوں میں تباہی کی بازگشت سنائی دینا شروع ہوچکی تھی۔ ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ اس سال یہ بارشیں تین سو سے چار سو فیصد زیادہ ہوئیں یا آسان الفاظ میں ہر سال ہونے والی بارشوں سے تین چار گنا زیادہ بارشیں ہوئیں۔ عرصہ دراز سے خشک نظر آنے والے برساتی نالے، رود کوہیاں اور پہاڑی پانی کے راستے بھرے اور پھر بپھر گئے۔ پانی اس قدر آیا کہ کسی کو بھی اس کی توقع نہ تھی۔

اسی طرح پنجاب کے ان علاقوں میں جو کوہ سلیمان اور بلوچستان سے متصل ہیں، پہاڑوں سے آنے والے پانی نے تباہی مچادی ہے۔ راجن پور، فاضل پور، روجھان اور تونسہ کے بالائی طرف کے علاقوں میں جہاں زندگی پہلے ہی بہت مشکل تھی، اس پانی کی وجہ سے عذاب کی صورت اختیار کرگئی ہے۔

سندھ کے اندرونی علاقوں میں تو صورت حال مزید دگرگوں ہے۔ پہلے بارشوں سے تباہی ہوئی اور پھر اب وہ روایتی ریلے جو دریائے سوات، سندھ اور پنجکوڑہ سے اکٹھے ہو کر سفر کرتے ہیں، گزشتہ ہفتے سے سندھ میں داخل ہوچکے ہیں۔ جہاں کہیں کوئی جگہ بچی تھی، وہ بھی زیر آب ہے۔ لاڑکانہ ڈویژن پوری کی پوری متاثر ہے۔

اسی طرح ضلع جیکب آباد اور اس سے متصل بلوچستان کے میدانی اضلاع صحبت پور، ڈیرہ الہ یار اور ڈیرہ مراد جمالی جو پاکستان کے پسماندہ ترین علاقے سمجھے جاتے تھے، اس وقت سیلاب کی آفت کا شکار ہیں۔ سیلابی پانی ہے کہ میلوں پھیلا ہوا ہے۔ 2010 کے سیلاب میں مجھے ان علاقوں میں جانے کا موقع ملا تھا۔ ایک ہی سڑک ہے جو جیکب آباد کو صحبت پور اور ڈیرہ الہ یار سے ملاتی ہے، یعنی سندھ اور بلوچستان کے درمیان رابطہ قائم کرتی ہے۔ یہ سڑک اس وقت بھی تباہ ہوئی تھی اور کئی ہفتوں زیر آب رہی تھی اور اس وقت بھی اس کی وہی حالت ہے۔ نہ جانے کب پانی اترے گا اور کب ان علاقوں میں زندگی بحال ہوگی۔

انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کی خوراک بھی درکار ہے:

اسی طرح مدد کرنے والے انسانوں کی مدد تو کررہے ہیں لیکن انسانوں کی طرح اس وقت جانوروں کے چارے اور خوراک کی بہت ضرورت ہے۔ جانوروں میں ہر طرح کے جانور شامل ہیں اور ان کے چارے بھی مختلف ہیں۔ مرغیوں کا دانہ چاہیے، گائیوں بھینسوں کے لیے خشک چارہ اور سائیلیج درکار ہے جو عموماً مکئی سے تیار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بھیڑ بکریوں کے لیے پٹھے اور سبز چارہ بھی چاہیے۔ یہ سب ضروریات بھی ساتھ ساتھ کھڑی ہیں اور مدد کرنے والوں کو ان کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

انفرادی طور پر مدد کرنے والوں کو اس بات کو بھی سمجھنا چاہیے کہ اس صورت حال میں ریلیف فراہم کرنا بھی ایک پوری سائنس ہے۔ رفاہی اداروں کی مہارت یا  expertise اس میں عام لوگوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ابھی ریلیف کا کام جاری ہے، اس کے بعد بحالی اور آبادی کاری کے مراحل آئیں گے، ان سب مرحلوں کے لیے بھی تیاری کی ضرورت ہے۔  

متعلقہ عنوانات