علامہ اقبال کے ہاں مقام مصطفیؐ اور عشق مصطفیؐ کی کیا اہمیت ہے؟

اقبال کے ہاں ہمیں جا بجا تذکرہ خیر الانام ﷺ ملتا ہے اور بہت ہی عقیدت و محبت بلکہ عشق و جذب کی کیفیات کے ساتھ ملتا ہے۔ اقبال تو ذات رسول پاکﷺ کو کائنات کی غرض وغایت قرار دیتے ہیں:

آیہ کائنات کا معنی دیریاب تو

نکلے تیری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو

اقبال کے نزدیک نبی مہربانﷺ کا مقام و مرتبہ مومن کے دل میں ہے، اور مومن کی آبرو ناموس رسالت سے وابستہ ہے:

در دلِ مسلم مقام مصطفیؐ است

آبروئے ما ز نام مصطفیؐ است

اسی طرح نبی اکرمﷺ سے محبت و الفت ایک مومن کے لیے دنیا کے سب انسانوں سے بڑھ کر قرار دیتے ہیں۔ مشہور حدیث ہے کہ :لایومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہٖ و ولدہٖ والناس اجمعین۔ علامہ اقبال نے اس حدیث مبارکہ کی تشریح  کچھ اس طرح کی ہے:

معنی حرفم کنی تحقیق اگر

بنگری با دیدۂ صدیق اگر

قوت قلب وجگر گردد نبی

از خدا محبوب تر گردد نبی

علامہ اقبال کو حضور سرور کائنات سے بے پناہ محبت تھی، اور اسی کو وہ اپنا سرمایہ حیات قرار دیتے ہیں:

ہر کہ عشق مصطفے ﷺسامانِ اوست

بحر و بر در گوشۂ دامانِ اوست

خود خدائے کائنات کے الفاظ ، ان کنتم تحبون اللہ ، کو اشعار کے معانی اقبال اس طور پہناتے ہیں:

کی محمدﷺ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

آپؐ کی قیادت و سالاری کو دل و جان سے تسلیم کرتے نظر آتے ہیں:

سالار کارواں ہے میر حجازؐ اپنا

اس نام سے ہے باقی آرام جہاں ہمارا

کہیں زمانے کے انقلابات میں اسی قوت عشق محمدی کو کارفرما کرنے کا حکم مومن کو دیتے نظر آتے ہی:

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے

دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کردے

جواب شکوہ کے اس بند میں کل کائنات کے وجود کو وجود محمدیﷺ کے وجود کا مرہون منت قرار دیتے نظر آتے ہیں:

ہونہ ہویہ پھول تو بلبل کا ترانہ بھی نہ ہو

چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو

یہ نہ ساقی ہو تو پھرمے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو

بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو

خیمہ افلاک ایستادہ اسی نام سے ہے

نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

عشق و مستی کی کیفیت میں ڈوبے ہوئے ان اشعار کا متبادل پیش کرنا بہت ہی مشکل ہے:

وہ دانائے سبلؐ، ختم الرسلؐ، مولائے کلؐ جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادیٔ سینا

نگاہِ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر

وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰس، وہی طٓہ

علامہ اقبال خدا سے التجاکرتے ہیں کہ اے اﷲ روزمحشرمجھے میرے محبوب کے سامنے شرمندہ نہ کرنا۔

تو غنی از ہر دو عالم من فقیر

روزِ محشر عذر ہائے من پذیر

گر حسابم را تو بینی ناگزیر

از نگاہ مصطفےٰؐ پنہا ں بگیر

اور آخر میں اقبال کے نعتیہ کلام میں سے یہ معرکۃ الآراء اشعارجذب و کیف کے ساتھ پڑھیے اور سردھنیے۔ ان  اشعار کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے رب کریم سے اپنے اور اس خاکسار کے لیے دعا بھی کیجیے:

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب

گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حجاب

عالمِ آب و خاک میں تیرے حضور کا فروغ

ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب

شوکت سنجر و تیرے جلال کی نمود

فقر و جنید بایزید تیرا جمال بے نقاب

شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام

میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب

تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پاگئے

عقل ، غیاب و جستجو ،عشق ،حضور و اضطراب

متعلقہ عنوانات