میں ہوں جناح: پاکستانی ہیروز کی تصویری کہانیوں پر مشتمل کتاب

جب ہم تاریخ کے اوراق  پلٹتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر زبان میں ادبِ اطفال کا ایک قابلِ ذکر سرمایہ موجود ہے۔ملک و ملت کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے والوں  کے کارناموں کو مختلف اندازِ سخن میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔ہر قوم اپنے ہیروز کے کارناموں کو زندہ رکھنے کے لیے مختلف انداز اپناتی آئی ہے۔کہیں انعامات،گولڈ میڈل،ڈاک ٹکٹ کا اجراتو کہیں یادگاری دن منایا جاتا ہے۔ان سب کا مقصد نئی نسل کو اپنے بزرگوں کے کارنامے، قربانیاں، اور ان کی  حب الوطنی بارے باور کرانا ہوتا ہے۔ جن سے سبق لے کرمستقبل کے معماراپنے فکر وفن کی راہیں ہموار کر سکیں۔ان کے اندر حب الوطنی پیدا ہو،ان کے قول و فعل وطن کے لیے ہوں،وہ ملک کے اچھے شہری بن کر اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردا ر ادا کرسکیں۔

                تمام شعبہ ہائے زندگی پر نظر ڈالی جائے تو معلوم  ہوتا ہے کہ  ادیبوں نے زندگی میں رنگ بھرنے کے لیے  کچھ زیادہ ہی اپنا خون جلایا ہے۔اپنے فکر وخیال اور تخیل سے قلم و قرطاس کی مدد  سے ادب اطفال کی پوری پوری خدمت کی ہے۔یہی وجہ ہے آج ادب اطفال پھل پھول رہا ہے بلکہ ترقی کی طرف گامزن ہے۔اُردو ادبِ اطفال میں شاندار اور جاندار تخلیقات سامنے آرہی ہیں۔بہت سے لکھاری ادب اطفال کی خدمت کے لیے اپنی متاع کے قیمتی مہ و سال دے چکےہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

                ادب اطفال کے لکھاریوں کا ذکر ہو تو دور ِحاضرکاایک نام میرے تخیل کی سر زمین پر مچلنے لگتا ہے، وہ ہے غلام زادہ نعمان صابری۔آپ  عہدِ حاضر کے  کا نامور ادیب اور شاعر ہیں۔ ہر لمحہ لبوں پہ مسکراہٹ رہتی ہے اور لاہور کی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔لاہور کو زندہ دل لوگوں کو شہر کہا جاتا ہے۔ قد کاٹھ،تخیل اور عمر میں مجھ سے کئی سال بڑے ہیں لیکن  ان کا دل جوان ہے، جذبے جوان ہیں اور یہی نہیں بلکہ  قلم  بھی جوان ہے۔ہر فن مولا غلام زادہ نعمان صابری،آقا ﷺکی مدحت میں نعتیں لکھتے ہیں  تو دل مغموم اور آنکھیں برستی ہیں،بچوں کے لیے نظمیں لکھتے ہیں تو لبوں پر مسکراہٹیں اور دل شرارتی بچہ بن جاتا ہے ۔ لیکن  ان شرارتوں میں اصلاحی سبق دینا نہیں بھولتے۔ان کی  بچوں کے لیے نظموں کی کتاب ”گلبل“کا مطالعہ کر لیجئے، آپ مجھ سے اتفاق کرنے لگیں گے۔

                نثر میں بھی غلام زادہ نعمان صابری اپنا ثانی نہیں رکھتے۔کہیں سفر کرتے ہیں  تو اس کی ایسی روداد پیش کرتے ہیں  کہ قاری بھی تخیل ہی تخیل میں ان کے ساتھ چل پڑتا ہے۔کہانیاں لکھتے ہیں  تو گہرے مشاہدے،وسعت مطالعہ کی بدولت نئے نئے پہلو اور اچھوتے موضوعات لے کر پیش کرتے ہیں۔ان کا انداز ِفکر اوراسلوب قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔

                آج ہمارے سامنے غلام زادہ نعمان صابری کی تازہ شائع ہونے والی کتاب  میں ہوں جناح“ ہے۔ یہ  کتاب کی تحریک پاکستان کی اہم شخصیات اور ہجرت کی کہانیاں لیے ہوئے ہے۔ہر کہانی بولتی،باتیں کرتی ہے یہی نہیں اب تو غلام زادہ نعمان صابری سے تصویریں بھی گفتگو کرتی ہیں۔”میں ہوں جناح“تصویری کہانیوں کا مجموعہ ہے۔واحد کردار ”کاکو شاہ“ہر تصویر کی آپ بیتی سنتا ہے،سوال کرتا ہے،شرمندہ ہوتا ہے،نئے عزم کے ساتھ اگلی تصویر کی طرف بڑھتا ہے اور پھر وہی مغموم دل،نم دیدہ آنکھیں،اداس چہرہ۔پھر اچانک ملاقات کے اختتام پر ہمت و جذبہ سے سرشارہوکر نئے عزم و ارادے سے آگے بڑھ جاتا ہے۔

                ”میں ہوں جناح“کی پہلی کہانی سرورق کہانی ہے جو قائداعظم کی تصویر سے محو گفتگو ہو کر اس ہیروکی قربانیاں،جذبے اور اپنوں کے تلخ رویوں کی داستان سناتی ہے۔آخری کہانی بھی ”آخری بات“کے عنوان سے قائداعظم سے گفتگو پر مشتمل ہے۔میں حیران ہوں غلام زادہ نعمان صابری نے جو کردار تخلیق کیا ”کاکو شاہ“ان پڑھا لگتا ہے لیکن جب تصویروں سے باتیں کرتا ہے اور سوالات کرتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے بہت سی کتابیں پڑھ کر اس ہال میں جا کھڑا ہوا ہے جہاں اس ارض وطن کے ہیروز کی تصویریں آویزاں ہیں اور ہر تصویر اس کو مخاطب کرکے اپنی آپ بیتی سناتی ہے۔زمانے کے دُکھ،اپنوں کے رویوں،دل کی صداقتوں کی داستانیں چیخ چیخ کر سناتی ہیں۔میں زیر نظر کتاب کا مطالعہ کرکے غلام زادہ نعمان صابری کے اس نئے اندازِ سخن کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا ہوں۔ہر کہانی معلومات افزا ہے، مختصر کہانی میں جامع معلومات کا احاطہ کرنا صاحبِ کتاب کے گہرے مطالعے کا غماض ہے۔

                ”میں ہوں جناح“98صفحات پر مشتمل پندرہ کہانیوں کے ساتھ بہترین دستاویز ہے جو ادب اطفال میں بہترین اضافہ ہے۔ہر کہانی نوحہ کناں ہے،شکوہ کناں ہے،اپنے دُکھ درد بیان کرتی ہے اور اپنوں کے رویوں پر مغموم ہے لیکن جذبوں سے پُر امید ہے کہ جس وقت کے لیے انہوں نے قربانیاں دی ہیں اس کے معمار بھی اس وطن کے لیے تن من دھن قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ایک طرف نامور شخصیات کی کہانیاں پیش کی گئی ہیں تو دوسری طرف الگ وطن کے لیے جو قربانیاں دی گئیں ان کا ذکر ہے۔”داستان ہجرت“کو پڑھ کر پتھر دل بھی پھوٹ پھوٹ کر رو دے گا۔”خالق نام پاکستان“کی کہانی نے حیرت میں غرق کیا بلکہ آنکھیں سمندر میں غوط زن ہوئیں۔کاش!اس مرد مجاہد کا قرض ارض وطن کی قوم اُتار سکتی۔

                ”میں ہوں جناح“کا انتساب بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔جو کچھ یوں ہے:”ان ہجرت کرنے والوں کے نام جو اپنوں کے بچھڑنے کا غم لے کر لٹے پٹے قافلے کے ساتھ پاکستان کی سر زمین پر سجدہ ریز ہوئے“۔”خاص بات“میں مصنف لکھتے ہیں:”وہی لوگ اچھے ہوتے ہیں جو اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو یاد کرکے انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ان کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔نیکی کرنے والے کا شکریہ ادا کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے“۔غلام زادہ نعمان صابری نے اپنے بزرگوں کی تصویری کہانیاں لکھ کر اپناحق ادا کر دیا ہے اب ہمیں اپنے تئیں نیکیاں کرکے،شریک محفل ہونا چاہیے۔یہ کتاب مارچ2022ء میں کرن کرن روشنی پبلشر ز  ملتان سے شائع ہوکر منظر عام پر آئی ہے جس کی قیمت400 روپے ہے۔یہ کتاب خرید کر ہم اس نیکی ِخیر میں شریک ہو سکتے ہیں۔کتاب کے حصول کے لیے  اس فون نمبر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے:

مجید احمد جائی : 03017472712

متعلقہ عنوانات