بھارت میں گستاخی رسول ﷺ کے واقعے کا کون ذمہ دار ہے؟

بھارت میں 2014 میں مودی حکومت کے آنے کے بعد اسلام مخالف اور مسلم دشمنی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ اب آئے روز بھارت میں کوئی پنڈت یا بدبخت ہندو راہنما اسلام کے خلاف اپنی خباثت کا اظہار کرتا نظر آتا ہے۔ بھارتی حکمران پارٹی کی ذیلی جماعت آر ایس ایس تو باقاعدہ طور پر بھارت میں مسلمانوں کے خلاف مہم جوئی کی عملبردار ہے۔ بھارت میں جب بھی الیکشن کا موسم آتا ہے تو بی جے پی سمیت ہندو انتہا پسند جماعتیں دو کارڈز مسلسل کھیلتی نظر آتی ہیں ایک پاکستان پر دہشت گردی کا الزام اور دوسرا بھارت میں مسلم دشمنی۔ حالیہ دنوں میں بھی ایک ٹی وی مباحثے میں حکمران جماعت کی ترجمان نے زہر اگلتے ہوئے نبی مکرم حضرت محمد ﷺ کی ذات پر گستاخانہ حملہ کیا۔ آئیے جانتے ہیں کہ یہ واقعہ کب ہوا، توہین آمیز بیان دینے والی نوپورشرما کون ہے؟ بھارتی حکمران جماعت کا اس میں کیا کردار ہے؟ بھارت میں اس پر کیا ردعمل آیا؟ عرب سوشل میڈیا نے کیسے بھارت پر دباؤ ڈالا؟ کن عرب ملک نے بھارت سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا؟ اس تکلیف دہ واقعے سے جڑے چند پہلوؤں کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

واقعہ کب ہوا؟

اگرچہ دنیا بھر میں اس واقعے پر ردعمل اور میڈیا پر اس کا چرچا پانچ جون 2022 کو ہوا لیکن یہ واقعہ مئی کے آخری ہفتے  کا ہے۔ بھارتی نیوز چینل "ٹائمز ناؤ" پر ایک بحث کے دوران حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی ترجمان نوپور شرما نے نہایت شرمناک انداز سے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی ذات کے خلاف توہین آمیز ریمارکس دیے۔

Description: C:\Users\KAMRAN\AppData\Local\Microsoft\Windows\INetCache\Content.Word\nupur-tv.jpg

 اس بحث کے دوران اینکر نے بھی کسی قسم کا ردعمل یا روکنے کی کوشش نہیں کی۔ کچھ دن قبل بی جے پی کے ہی سینیر راہ نما نوین کمار جندال نے بھی  نوپورشرما کے توہین آمیز ریماکس کی حمایت میں توہین رسالت ﷺ پر مبنی ٹویٹ کردیا۔ حسب معمول بدبخت ہندو جوگی اور پنڈت نوپور شرما کی حمایت میں ساتھ دینے لگے۔

نوپور شرما اور نوین جندال کون ہیں؟

نوپور شرما اعلیٰ تعلیم یافتہ عورت ہے، لندن سکول آف اکنامکس سے وکالت کی ڈگری حاصل کی۔ وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہے اور بھارتی حکمران جماعت کی معروف خاتون اور  بی جے پی کی دہلی یونٹ کی سرکاری ترجمان ہے۔ اس نے عام آدمی پارٹی کے وزیراعلٰی کے امیدوار اروند کجری وال کے خلاف الیکشن لڑا لیکن بھاری اکثریت سے ناکامی کا سامنا کیا۔ وہ بی جے پی کے یوتھ یونٹ " بھارتیا جنتا یووآ مورچہ" کی سرگرم رکن کے طور پر جانی جاتی ہے۔

نوین کمار جندال بھارتی صحافت ایک جانا منانا چہرہ ہے۔ وہ تیس سال سے زائد عرصہ صحافت سے منسلک رہا ہے۔ وہ اس وقت  بی جے پی کا ہیڈ آف میڈیا اور ترجمان کی حیثیت سے کام کررہا ہے۔ یاد رہے نوین جندال کے نام سے ایک معروف بھارتی  صنعت کار ہے جس کا تعلق نیشنل کانگریس سے ہے۔

بھارت میں ردعمل:

بھارت میں اس پر شدید ردعمل آیا۔ کئی سیاست دانوں اور دانشوروں نے اس بیان کی مذمت کی۔ کئی شہروں میں احتجاجی جلوس بھی نکالے گئے۔ نوپورشرما کے خلاف توہین مذہب کے الزام میں ایف آئی آر بھی درج کروائی گئی۔لیکن دس دن گزرنے کے باوجود بھارتی حکومت نے کوئی خاطر خواہ ایکشن نہیں لیا۔ لیکن  'الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے' کے مترادف انتہاپسند ہندوؤں نے سوشل میڈیا پر بھی اسلام اور نبی کریم ﷺ کے خلاف زہریلی مہم شروع کردی گئی۔ بی جے پی حکومت نے حسب معمول اپنے راہنماؤں کو بچانے کی کوشش کی اور کسی قسم کا کوئی ایکشن نہیں لیا۔

ٹویٹر پر ٹرینڈنگ:

بی جے پی کے راہنماؤں کے گستاخانہ ریمارکس کو بھارت صحافی اور فیکٹ چیک ویب چینل 'آلٹ نیوز' کے سربراہ محمد زبیر نے بھرپور طور پر ٹویٹر پر ہائی لائٹ کیا۔ جس کے بعد ٹویٹر پر یہ کئی دن تک ٹرینڈ کرتا رہا۔ لیکن اس پر زیادی توجہ نہیں دی گئی۔

عرب ممالک کا ردعمل:

اس بار بھارت پر دباؤ اندرونی ردعمل کے بجائے باہر کے ردعمل سے آیا۔ یعنی اس واقعے کا سب سے زیادہ چرچا عرب سوشل میڈیا پر آیا۔ عرب میں "الا رسول اللہ یامودی" (اے مودی ! رسول اللہ ﷺ کے خلاف کچھ نہیں کہنا) سب سے بڑا ٹرینڈ بن چکا ہے۔ اس ٹرینڈ کے بعد عرب میں بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی باقاعدہ مہم شروع ہوگئی۔ کئی عرب ممالک نے بھارتی سفیروں کو بلا کر احتجاج کیا۔ سب سے سخت ردعمل قطر حکومت کی طرف سے آیا، قطر نے بھارتی حکومت سے معافی مانگنے کا مطالبہ کردیا۔ پاکستانی حکومت نے بھی سخت الفاظ میں اس گستاخانہ واقعے کی مذمت کی اور عالمی سطح پر اس واقعے کو نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب، کویت، اومان اور ایران نے بھی سرکاری اعلامیے جاری کرتے ہوئے اس واقعے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔

بی جے پی کا ردعمل

بھارتی حکومت نے شروع میں کوئی ردعمل نہیں دیا بلکہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی جانب سے احتجاجی بیان کو بھی بھارت وزرات خارجہ سے سختی سے مسترد کردیا۔ تاہم عرب حکومتوں اور عرب سوشل میڈیا پر بھارتی پروڈکٹس کے بائیکاٹ کی دھمکی نے حکمران بی جے پی کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ 6 جون کو بی جے پی نے ایک سرکاری بیان جاری کیا جس میں اس واقعے سے برات کا اعلان کیا گیا ہے۔ مزید برآں نوین کمار جندال کو پارٹی سے نکال دیا اور نوپور شرما کی بنیادی رکنیت معطل کردی اور پارٹی عہدے سے بھی برطرف کردیا۔ لیکن تاحال وزیر اعظم مودی اور دیگر سرکاری عہدے داروں کی طرف سے کسی قسم کی مذمتی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ بلکہ شنید ہے کہ حکمران جماعت نوپور شرما کی پشت بناہی کررہی ہے اور قانونی کارروائی کرنے سے گریزاں ہے۔

نوپورشرما کی معافی

سوشل میڈیا، بی جے پی کے برات کے اعلان اور عرب ممالک کے ردعمل کے بعد نوپور شرما اور نوین کمار جندل نے غیر مشروط معافی مانگ لی ہے۔ نوپور شرما نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر ایک بیان جاری کیا جس میں اس نے اپنے گستاخانہ بیان کو واپس لینے اور غیر مشروط معافی مانگنے کا اعلان کیا۔ لیکن اس بیان میں بھی اپنی دریدہ دہنی کا دفاع کیا کہ اس کے بیاننات کو توڑ موڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ حالاں کہ اس عذر کو بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا نے بھی مسترد کردیا ہے۔

نوپورشرما نے گستاخی کیوں کی؟

حکمران جماعت بی جے پی کئی عرصے سے بھارت میں ہندوتوا کلچر کو فروغ دینے کے لیے کوشاں نظر آتی ہے۔ نوپورشرما کے گستاخانہ ریمارکس بھی اس مسلم دشمن مہم کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ بی جے پی سمیت ہندو شدت پسند تظیمیں اور ہندو راہنما مسلسل مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے اور اسلامی شعار کا مذاق اڑانے کی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ رواں برس کئی مواقع پر مسلمانوں کی قدیم مساجد پر قبضے اور ان کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک مسلم طالبہ کے نقاب پہننے پر یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ اسی طرح پانچ ماہ قبل ہری دِوار (اتراکھنڈ) کے ایک ہندو مذہبی تہوار میں مسلمانوں کو بھارت سے نکل جانے کی دھمکی دی گئی۔

چند دن قبل امریکی وزرات خارجہ نے بھارت مین اقلیتوں پر ظلم و ستم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ایک رپورٹ جاری کی۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت مین اقلیتوں پر حملے میں اضافہ ہوا ہے۔  اس رپورٹ کو بھارت نے یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ یہ رپورٹ غلط اعداد و شمار پر مشتمل ہے۔

الغرض بھارت میں مسلم دشمنی اور اسلام کے خلاف گستاخانہ واقعات میں حکمران جماعت براہ راست ذمہ دار ہے۔ اگر بی جے پی نے اس پر مثبت اقدامات نہ کیے تو مسائل زیادہ گھمبیر ہوجائیں گے۔ امکان ہے کہ عرب ممالک کے ساتھ بھارت کے سفارتی تعلقات میں بھی مزید کشیدگی کا سامنا کرنا پڑے۔

متعلقہ عنوانات