ستائیس اکتوبر کو پاکستانی اور کشمیری مسلمان یوم سیاہ کیوں مناتے ہیں؟

تین جون کے منصوبے کے تحت پاکستان اور بھارت کی تقسیم کا اعلان ہو چکا تھا۔ برصغیر میں موجود پانچ سو سے زیادہ ریاستوں کے پاس تین راستے تھے۔بھارت میں شمولیت ، پاکستان میں شمولیت یا پھر آزاد خود مختاری۔ سری نگر میں مسلمانوں کی جانب سے پاکستان کے حق میں جھنڈے لہرا دیے گئے۔ لیکن کشمیر کے راجا مہاراجا ہری سنگ نے سخت کریک ڈاؤن کیا۔

 اس وقت کشمیر میں دو مقبول سیاسی جماعتیں تھیں۔ آل انڈیا مسلم کانفرنس، جو کہ کشمیر میں مسلم لیگ کی اتحادی تھی اور نیشنل کانفرنس۔ یہ سیکولر جماعت تھی جو کہ کانگرس کی اتحادی تھی۔ عبدالستار آغا شاہی کے مطابق مسلم کانفرنس نے جولائی 1947 میں قرارداد منظور کی جس میں اس نے کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا کہا۔ اسی طرح نیشنل کانفرنس میں بھی عام رائے عامہ یہی تھی کہ پاکستان کے ساتھ ہی الحاق کیا جائے۔ کیونکہ کشمیر میں بھاری اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ لیکن نیت مہاراجا ہری سنگ کی خراب تھی۔

اس نے دونوں سیاسی جماعتوں کے سربراہان  مسلم نیشنل کانفرنس کے چوہدری غلام  عباس اور نیشنل کانفرنس کے شیخ عبداللہ کو قید کروا دیا۔ اگست میں اس نے مسلمانوں پر کریک ڈاؤن کیا اور مسلمانوں کے تمام اخبارات بند کروا دیے۔ پھر پاکستان اور بھارت دونوں کی حکومتوں کے ساتھ ایک معاہدہ دستخط کیا جس میں اس نے   فوری دونوں ممالک میں سے کسی کے ساتھ بھی نہ الحاق کرنے کا کہا۔ پھر اس نے حکم نامہ جاری کیا، جس میں اس نے مسلمانوں کو کہا کہ اپنے اپنے ہتھیار حکومت کو جمع کروا  دو۔ پھر  ساتھ کی ہندو ریاستوں پٹیالا اور کپورتھل سے فوجی بھی منگوائے۔ جن میں آر ایس ایس کے انتہا پسند بھی آ گئے۔  لیکن مسلمانوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ پچیس اگست کو سردار عبدالقیوم خان نے بغاوت کا اعلان کر دیا۔ ان کی بغاوت  میں ساٹھ ہزار کے لگ بھگ فوجی جو کہ دوسری عالمی جنگ کے تربیت یافتہ تھے، بھی شامل ہو گئے۔ ستمبر میں سردار  عبدالقیوم نے آزادی کے لیے جدو جہد شروع کر دی۔

لیکن اس دوران جیل میں قید نیشنل کانفرنس  کے سربراہ شیخ عبدللہ کے ساتھ نہرو کی ساز باز ہو چکی تھی۔ نہرو کی جانب سے مہاراجا کو ان کی رہائی کا اشارہ ہوا۔ انتیس ستمبر کو جیسے ہی شیخ عبداللہ رہا ہوئے انہوں نے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی مہم شروع کر دی۔ یہ مسلمانوں کی صفوں میں پہلی بڑی دراڑ تھی۔

شیخ عبداللہ کے نہرو اور مہاراجا کے ساتھ ملتے ہی  مسلمانوں پر   ہندو سکھ گٹھ جوڑ سے مظالم میں شدت آگئی۔  کشمیری مسلمانوں کے لیے پاکستان سے قبائلی خون نے جوش مارا۔ مسعود، وزیر اور آفریدی قبائل مسلمانوں کی امداد کے لیے کشمیر پہنچے۔ لڑائی جھگڑوں اور فسادات میں تقریباً مہینہ نکل گیا۔  مہاراجا نے حالات بگڑتے دیکھے تو پاکستان اور بھارتی حکومتوں کے ساتھ سٹینڈ سٹل معاہدے کو توڑتے ہوئے کشمیر کو بھارت میں ضم کر دیا۔ یہ چھبیس اکتوبر 1947 کا دن تھا جب مہاراجا  نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا۔ ساتھ ہی شیخ عبداللہ کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ ستائیس اکتوبر کو بھارتی افواج کشمیر پہنچنا شروع ہو گئیں اور  باقی کے واقعات آپ کے سامنے ہی ہیں۔

چونکہ ستائیس اکتوبر کو بھارت نے کشمیر میں اپنی افواج داخل کیں۔ اس لیے اسے ہم یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہم کشمیری بھائی بہنوں کا ساتھ اس وقت تک دیتے رہے گے جب تک بھارت قبضہ چھوڑ نہیں دیتا۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ کشمیری خود فیصلہ کریں کہ وہ  پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں، بھارت کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں یا پھر آزاد مختار الگ ملک  چاہتے ہیں۔ یہ فیصلہ صرف کشمیری عوام کر سکتے ہیں۔ کوئی زبردستی ان کو نہیں قبضا سکتا۔

متعلقہ عنوانات