بائیسکل کی ایجاد کی دلچسپ کہانی

بائسیکل کو شریف ترین ایجاد کہا گیا ہے۔

بائسیکل دو پہیوں پر مشتمل ایک ہلکی سواری ہے۔اس کے استعمال سے وقت اور توانائی،دونوں کی بچت ہوتی ہے۔

بائسیکل بہت سی تبدیلیوں سے گزر کر موجودہ شکل کو پہنچی ہے۔لیکن آج سے ہزاروں سال پہلے مصر میں بائسیکل سے ملتی جلتی ایک سواری استعمال کی جاتی تھی جو دو پہیوں پر چلتی تھی اور اسے بھی پاؤں کی مدد سے چلایا جاتا تھا۔

1817ءمیں جرمنی کے ایک شخص بیرن فان ڈریس (Baron Fon Drais) نے ایک بائیسکل ایجاد کی جسے لکڑی سے بنایا گیا تھا۔تاہم اس کے ساتھ پیڈل نہیں تھےبلکہ اسے چلانے کے لیے زمین کو پیروں سے دھکیلنا پڑتاتھا۔اگلے پہیے پر ایک ہینڈل لگایا گیا تھا جو موڑ کاٹنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔اس بائسیکل کا نام اس کے موجد کے نام پر ڈریسن (Draisine) رکھا گیا تھا۔بعد میں اس کا نام ڈینڈی ہارس (Dandy Horse) پڑ گیا۔کہا جاتا ہے کہ انگلستان کا شاہ جارج چہارم ڈریسن پر سفر کرنا بہت پسند کرتا تھا۔

1840ء میں اسکاٹ لینڈ کے ایک شخص میکملن (Macmillan) نے ایک پرانا ڈینڈی ہارس لے کر اس کے اگلے پہیے کےساتھ پیڈل اور پچھلے پہیے کےساتھ گردانے (Cranks)لگادیے اور پیڈلوں اور گردانوں کو سلاخوں کی مدد سے جوڑدیا۔یہ بائیسکل ڈینڈی ہارس کی نسبت زیادہ تیز چلتی تھی اور اسے چلانے کے لیےزمین پر پاؤں بھی نہیں مارنے پڑتے تھے۔

میکملن قدرے جوشیلی طبیعت کا مالک تھا اور عموماً بائسیکل بہت تیز چلاتا تھا۔وہ راہ گیروں سے چھوتا ہوا گزر جاتا اور وہ بے چارے دیکھتے رہ جاتے ۔آخر کار اسے خطرناک ڈرائیونگ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔

بائسیکل کا لفظ سب سے پہلے 1865ء میں استعمال کیا گیا۔ایک فرانسیسی شخص لیل منٹ (lallement)نے پرانی طرز کی بائسیکل لے کر اس کے اگلے پہیے کے ساتھ پیڈل اور گردانے لگادیے۔اس طرز کی بائسیکل کو ’’ہڈی توڑ‘‘ (Bone Shaker) کہا جاتا تھا کیوں کہ ان کے ڈھانچے بہت بھاری بھرکم تھےاور ان میں لوہے کے ٹائر استعمال کیے جاتے تھے۔1868ء میں ربڑ کے ٹائر والے ہلکے دھاتی پہیے استعمال کیے جانے لگے۔

کچھ ہی عرصے بعد ایک نئی طرز کی بائسیکل منظر عام پر آئی جس کا نام آرڈنری (Ordinary) تھا۔اب تک بائسیکل کے دونوں پہیے ایک ہی قطر کے ہوتے تھےلیکن آہستہ آہستہ اگلا پہیہ پچھلے پہیے کی نسبت بڑا ہوتا چلا گیا۔اس کا مقصد یہ تھا کہ پیڈل کو چکر کو دینے سے بائسیکل زیادہ سے زیادہ فاصلہ طے کرے۔

اس دور میں بائیسکلوں کے عجیب و غریب نمونے سامنے آئے۔ایک پہیہ چھوٹا سا اور دوسرا آسمان کو چھوتا ہوا۔سائیکل چلانے والا اگلے پہیے کی چوٹی پر بیٹھتا تھا اور اسے بہت سنبھل سنبھل کر بائیسکل چلانا پڑتی تھی۔ذراسا توازن بگڑا اور وہ اوندھے منہ زمین پر!

موجودہ طرز کی بائیسکل 1885ء میں بننا شروع ہوئی اس میں برابر قطر کے پہیے استعمال کیے جاتے ہیں۔دونوں پہیوں کے درمیان پیڈل ہوتے ہیں۔پیڈلوں کے ساتھ ایک گراری لگی ہوتی ہے۔اسے بڑی گراری کہتے ہیں۔چھوٹی گراری پچھلے پہیے کے محور کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ان گراریوں کو ایک زنجیر (Chain) کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔جب کے پیڈلوں پر قوت لگائی جاتی ہے تو بڑی گراری زنجیر (Chain) کے ذریعے اس قوت کو پچھلے پہیے پر لگی چھوٹی گراری تک منتقل کردیتی ہےاور پہیہ گھومنے لگتا ہے۔

متعلقہ عنوانات