کافی کی کہانی: افریقہ کے جنگلات سے لے کر یورپ کے محلات تک کا سفر

کافی(Coffee)ایک جھاڑی نما پودے سے حاصل ہوتی ہےجو گرم مرطوب آب وہوا میں خوب پھلتا پھولتا ہے۔اس کے پھل کو پیس کر سفوف بنایا جاتا ہےجسے چائے کی طرح ابال کر پیتے ہیں۔کافی پینے سے جسم میں چستی پیدا ہوجاتی ہے۔

کافی کی دریافت کے بارے میں وثوق سےکچھ نہیں کہا جاسکتا ،تاہم اس کا اصل وطن حبشہ (ایتھوپیا)ہے۔کافی کی دریافت کے بارے میں ایک کہانی مشہور ہے کہ ہزاروں برس پہلے ایک حبشی کا گزر کافی کی ایک جلتی ہوئی جھاڑی کے پاس سے ہوا۔اس کو یہاں سے نہایت فرحت بخش خوشبو آئی۔اس نے جب اس جھاڑی سے ایک دو دوانے اتار کر چبائے تو اسے ان کا ذائقہ اتنا پسند آیا کہ اس نے ان کا مشروب تیار کرکے پینا شروع کردیا۔

پندرھویں صدی تک کافی صرف حبشہ میں کاشت ہوتی تھی۔یہاں سے یہ عرب میں پہنچی اور پھر رفتہ رفتہ یمن،مصر اور ترکی میں بھی رواج پاگئی۔سترھویں صدی میں جاوا(Java)اور دوسرے استوائی ملکوں میں کافی کی کاشت کا آغاز ہوا۔انگریز کافی کا اپنے ساتھ جمیکا (Jamaica)لے گئے جہاں سے یہ شمال امریکہ اور جنوبی امریکہ کے ملکوں تک پہنچی۔کافی کی کاشت کے لیے خطِاستوا کے آس پاس کے ملکوں کی آب و ہوا بھی ساز گار ہے لیکن بلندی پر واقع علاقے کافی کی  کاشت کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔کافی کی پیداور کے لحاظ برازیل (Brazil)سرفہرست ہے۔برازیل میں کافی کے بےشمار باغات لگائے گئے ہیں جن سے عالمی پیداوار کا تین چوتھائی حصے سے کافی حاصل ہوتی ہے۔برازیل کے علاوہ  وینزویلا(Venezuela)گوئٹے مالا (Guatemala)،میکسیکو(Mexico)،کولمبیا(Columbia)اور ویسٹ انڈیز(West indies)بھی کافی کی پیداوار کے لیے مشہور ہیں۔

شروع شروع میں ’’جاوا‘‘اور ’’محہ‘‘ (Mocha)کی اصطلاحات ان جگہوں کے لیے استعمال کی جاتی تھیں،جہاں سے کافی منگوائی جاتی تھی۔آج کل ان الفاظ سے یہ مفہوم نہیں لیا جاتا۔اب یہ لفظ کافی کی دو خاص قسموں کی نمائندگی کرتے ہیں۔انہیں ریو(Rio)اور سانتوز بھی کہا جاتا ہے۔ان دونوں قسموں کی کاشت اب برازیل میں بھی ہورہی ہے۔دنیا میں کافی کی سب سے بڑی بندرگاہ سانتوزبرازیل میں واقع ہے۔

خطِ استوا پر واقع جنگلات میں کافی کے پچیس سے زیادہ قسموں کے پودے پائے جاتے ہیں لیکن ان میں سے صرف دوقسمیں ایسی ہیں جن کو ’’کافی ‘‘ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

متعلقہ عنوانات