جو ملک کو منظم کرنا چاہتا ہے وہ پہلے اپنے خاندان کو منظم کرے: کنفوشس کی حکمت بھری باتیں

عظیم کنفوشس کی حکمت بھری باتوں میں سے اقتباس۔۔۔قیادت یا لیڈرشپ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ سب سے پہلے خاندان کو منظم اور ان کی دیکھ بھال میں بہترین کارکردگی دکھانا۔۔۔۔ذیل میں کنفوشس کے وہ اقوال نقل کیے جارہے ہیں جو انھوں نے خاندان کی بہتری کے لیے ارشاد فرمائے ہیں۔

نوٹ: عظیم کنفیوشس کی باتیں:چینی زبان سے انگریزی میں ترجمہ: چارلس مولر جبکہ انگریزی سے اردو ترجمہ: توقیر بُھملہ نے کیا ہے۔ توقیر بُھملہ صاحب کے شکریے ساتھ پیش خدمت ہے۔

"اگر آپ ملک کا نظم و نسق سنبھالنے کا خیال رکھتے ہیں، تو پھر آپ کو سب سے پہلے اپنے خاندان کو منظم کرنا ہوگا۔"

  ایسا کبھی بھی نہیں ہوسکتا کہ ایک آدمی اپنے خاندان کو تعلیم یافتہ بنانے میں تو ناکام رہے، مگر وہ سماج کی تعلیم و تربیت پر بضد رہے۔ 

اس لیے سب سے بہترین اور اعلی شخص وہی ہے جو ملک سدھارنے کا آغاز، اپنی ذات، اپنے گھر اور اپنے خاندان کی تعلیم و تربیت سے کرتا ہے۔ 

حکمران صرف اسے  ہونا چاہیے جو تقوی کی معراج پر ہو۔  جو دل سے اپنے بزرگوں کی خدمت کرنے اور حد درجہ ان کا ادب و احترام کرنے والا ہو۔  اپنے سے چھوٹوں و دیگر افراد کے ساتھ نہایت شفقت اور نرمی سے پیش آنے والا ہو۔

  "کانگ اپنے خطاب کے دوران" کہتا ہے: "یہ ایسا ہے جیسے ایک ماں اپنے بچے کی دیکھ بھال کے لیے خود کو مکمل طور پر وقف کر دیتی ہے۔"  ہو سکتا ہے وہ بچے کی پرورش کرنے میں ماہر نہ ہو، لیکن وہ پھر بھی اپنے بچے کو کسی دوسری عورت کے سپرد کرکے اس سے جدا ہونا برداشت نہیں کرسکتی، حالانکہ اس نے بچے کو جنم دینے سے پہلے کبھی بھی بچوں کی پرورش کی کوئی تربیت حاصل نہیں کی ہوتی۔

  جب ایک خاندان انسانیت کے اصولوں پر عمل پیرا جائے گا ،تو پورا ملک انسانیت قائم کرنے کے لیے خود بخود متحرک ہو جائے گا۔ 

جب ایک خاندان کے ساتھ معاملات طے کرنا آسان ہو جاتا ہے، تو ملک کے تمام لوگوں کے ساتھ میل جول اختیار کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ 

اگر ایک آدمی لالچ و فساد سے معاملات کو بگاڑ دے تو پھر پورا ملک افراتفری میں ڈوب سکتا ہے۔

حقیقی معنوں میں معاشرے کی تعمیر و ترقی اسی کلیے میں مضمر ہے اور یہ عملی طور پر واقعی اس طرح ہے۔ 

اس لیے کہاوت ہے کہ ’’ایک لفظ سارا معاملہ جیت سکتا ہے، ایک آدمی پوری سلطنت کو آباد کر سکتا ہے۔‘‘

یاؤ اور شون نے سلطنتوں کی بنیاد انسانیت پر رکھی اور عوام نے ان کی قیادت کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔ 

زی اور چاؤ نے جارحیت کے ساتھ سلطنت کے معاملات کو چلایا ، لوگوں نے ان کے سامنے بھی سرتسلیم خم کیا۔

لیکن حقیقت میں لوگ ایسے قوانین کے ساتھ کبھی بھی زیادہ دیر ہم آہنگ ہو کر چل نہیں پائے جو انہیں پسند نہیں تھے۔

  بہترین انسان وہی ہے جو دوسروں میں اچھائی تلاش کرنے سے پہلے وہ اچھائی خود اختیار کرتا ہے۔  وہ دوسروں کی برائیوں کو ختم کرنے سے پہلے اپنی برائیوں سے چھٹکارا حاصل کرتا ہے۔

 جو شخص دوسروں کو معاف کرنے کی صلاحیت اور باہمی تعاون کا جذبہ نہیں رکھتا وہ اپنا علم اور فن کبھی بھی دوسروں کو نہیں سکھا سکتا۔

 قدیم کتابوں میں لکھا ہے کہ "آڑو کا درخت جب اپنے جوبن پر ہوتا ہے، تو پھل کے ساتھ ساتھ اس کے پھول پتے بھی غذائیت سے بھرپور ہوتے ہیں۔  لڑکی جب اپنے شوہر کے گھر جاتی ہے، تو وہ گھر میں خاندان کی بنیاد رکھنے  اور خاندان کو مربوط و منظم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔"  ایک بار جب گھر میں ہم آہنگی پیدا ہو جائے تو پوری سلطنت کے نظام میں ہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے ۔

  قدیم کتابوں میں لکھا ہے کہ :

 " جو شخص اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ادب و احترام کا سلوک روا رکھتا ہے اور جو شخص اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ شفقت و پیار کا معاملہ کرتا ہے ، وہی شخص اس قابل ہوتا ہے کہ اپنے ہم وطنوں کی تربیت کرسکے۔"

  قدیم کتابوں میں لکھا ہے کہ :

"ایسا شخص اپنے معاملات میں دوغلا پن نہیں اختیار کرتا، اس کا اسلوب ناقابل تغیر ہوتا ہے ۔"

  وہ اپنے آپ کو حد درجہ تک درست کرچکا ہوتا ہے۔ لہٰذا جب حکمران اپنے اندر باپ/بیٹے، بڑے بھائی/چھوٹے بھائی کے رشتوں میں ادب و احترام کو یقینی بناتے ہوئے تمام معاملات کو عزت سے پایہ تکمیل تک پہنچائے گا تو لوگ اس کی شخصیت کو بطور نمونہ دیکھیں گے۔ "

اسی لیے کہا جاتا ہے:

"ملک پر حکومت کرنے کی اہلیت خاندان کو ہم آہنگ کرنے میں مضمر ہے۔ خاندان کو منظم رکھنے کا راز فرد کی درست آبیاری میں مضمر ہے۔"

 جب آپ کسی سے محبت کرتے ہیں تو پھر آپ باقیوں کے ساتھ تعصب رکھتے ہیں ۔  جب کوئی ایسا ہے جس سے آپ نفرت کرتے ہیں، تو اس کے متعلق آپ متعصب ہوتے ہیں۔  جب کوئی ایسا ہوتا ہے جس سے آپ خوف زدہ ہوتے ہیں، تو آپ اس کے متعلق متعصب ہوتے ہیں۔  جب کوئی ایسا ہوتا ہے جس پر آپ کو ترس آتا ہے تو آپ دیگر کے متعلق متعصب ہوتے ہیں۔  جب آپ سست ہوتے ہیں تو آپ اپنی سستی اور کاہلی کے بجائے متحرک افراد سے متعصب ہوتے ہیں۔ 

وہ لوگ جو کسی سے پیار کرتے ہیں اور پھر بھی اس کی برائیوں سے آگاہ رہتے ہیں، یا وہ لوگ جو کسی سے نفرت کرتے ہیں اور پھر بھی اس کی شخصیت کے اچھے پہلوؤں کو جانتے ہیں، تو ایسے لوگ نہایت قلیل تعداد میں ہیں۔

اسی لیے کہاوت ہے: ’’آدمی کو اپنے اولاد کی برائی نہیں دکھائی دیتی، اپنی آنکھ کا شہتیر نہیں دیکھتا اور دوسروں کی آنکھ کا تنکا دیکھتا ہے۔‘‘ 

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر آپ خود اپنی تربیت نہیں کرتے، اپنے آپ میں سدھار اور بدلاؤ نہیں لاتے تو پھر آپ اپنے خاندان کو بھی منظم نہیں کر سکتے۔

متعلقہ عنوانات