شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس: کیا چین اپنے حلیف بڑھا کر امریکی ورلڈ آرڈر کا مقابلہ کرپائے گا؟

چین، روس، پاکستان، بھارت، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان۔ یہ ہیں اب تک کے شنگھائی تعاون کی تنظیم کے اراکین۔  ان ممالک کے سربراہان اس تنظیم کے بائیسویں اجلاس  کے لیے سمرقند جو کہ ازبکستان کا دارالحکومت ہے،  میں سولہ ستمبر کو جمع تھے۔ ایسا نہیں ہے شنگھائی  تعاون کے اس اجلاس میں صرف یہ ممالک شامل ہیں۔ بلکہ افغانستان، بیلاروس، منگولیا اور ایران بطور  مبصر ممالک، جبکہ آذربائیجان،  آرمینیا، کمبوڈیا، نیپال، سری لنکا اور ترکیہ بطور ڈائیلاگ پارٹنر موجود  تھے۔ بات صرف یہیں نہیں تک سمٹی۔ آسیان، اور اقوام متحدہ کے  نمائندگان بطور مہمان بھی اس اجلاس میں شریک  تھے۔  بحرین، متحدہ عرب امارات، میاںمار، مالدیپ اور کویت کو اس تنظیم میں ڈائیلاگ پارٹنر کا درجہ دے دیا گیا۔

سارا ماجرا سنانے کا مقصد یہ  ہے کہ آپ دیکھ سکیں  چین اپنے بازو کس قدر پھیلا چکا  ہے۔ کیونکہ جیسا کہ نام سے واضح ہے  شنگھائی  تعاون کی تنظیم چین  کے حلیفوں پر مشتمل تنظیم ہے۔ اس کا سیکریٹیریٹ بھی شنگھائی  میں ہے، جبکہ اس کی کارروائیوں کو ریکارڈ بھی چینی یا روسی زبان میں کیا جاتا ہے۔ انگریزی کا اس میں ذکر تک نہیں۔ 1996 میں جو سفر اس تنظیم نے پانچ ممالک کے ہمراہ شروع کیا تھا  وہ اب آٹھ اراکین ممالک، چار مبصر ممالک اور چھے ڈائیلاگ پارٹنر ممالک تک پھیل چکا ہے۔   صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ تنظیم اب جی 7 اور جی 20 جیسے اتحادوں کو ٹکر  دے رہی ہے۔

شنگھائی  تعاون کی تنظیم کا بائیسواں اجلاس کیوں اہم ہے؟

پندرہ اور سولہ ستمبر کو ہونے والا شنگھائی  تعاون تنظیم کا اجلاس کئی ایک پہلوں سے بہت اہم رہا۔ عالمی ماہرین بارہا  نشان دہی کر چکے ہیں کہ دنیا کا عالمی نظام اب یونی پولر سے ملٹی پولر  ہوتا جا رہا ہے۔ یعنی اب  تمام دنیا امریکی  حصار سے نکل کر مختلف عالمی طاقتوں کے حصار میں تقسیم ہوتی جا رہی ہے۔ چین ایک عالمی طاقت ہے اس کا  اثررسوخ مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا، وسطی ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ  میں پھیل چکا ہے۔ اسی طرح روس مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا میں اپنا اثررسوخ پھیلانے میں لگا ہوا ہے اور پھر امریکہ مغربی یورپ ، مشرق وسطیٰ جنوبی امریکہ سمیت دنیا کے دیگر علاقوں میں اب تک اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے  ہے۔ دنیا کے کئی ایک ایسے ممالک اور علاقے ہیں جہان پر عالمی طاقتیں ایک دوسرے کو پچھاڑ کر اپنی  چوہدراہٹ  قائم کرنے میں لگی ہیں۔ آپ مشرقی یورپ کا یوکرائن محاذ ہی لے لیں۔ چھے ماہ سے زائد ہو چکے ہیں یہاں روس اور امریکہ کی بلاواسطہ لڑائی کو۔

شنگھائی  تعاون کی  تنظیم کا یہ اجلاس اس ضمن میں بہت ہی اہم تھا۔  کیونکہ اس پر نظریں لگی تھیں کہ چین  روس کے لیے آیا کھل کر سامنے آتا ہے یا نہیں۔ چین کے صدر شی جی پنگ تین سال بعد اپنے ملک سے کسی دوسرے ملک کے دورے پر گئے تھے۔ پھر پیوٹن اور شی جی پنگ کی ملاقاتگ ہوئی جو کہ عالمی میڈیا میں پورے مرچ مسالے کے ساتھ رپورٹ ہوئی۔  چینی صدر بہر حال اپنے روس یوکرائن جنگ  پر پرانے موقف پر ہی  قائم نظر آئے۔  یعنی وہی چینی موقف نیٹو کے پھیلاؤ کو تنازعے  کی بنیاد قرار دیتے ہوئے روس پر پابندیوں کو عالمی معیشت کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ لیکن روس کے یوکرائن  پر حملے کی کھل کر حمایت بھی نہیں کی۔  البتہ پیوٹن نے تائیوان میں مغربی ممالک کی مداخلت پر مغربی اقوام کو تنقید کا نشانہ بنا دیا۔

دوسری اہم  بات اس اجلاس میں یہ ہوئی کہ اس کا حلقہ اثر عرب خطے تک پھیل گیا۔ متحدہ عرب امارات، بحرین اور قطر اس تنظیم کا بطور ڈائیلاگ پارٹنر  حصہ بن گئے۔ یعنی یہ نشان دہی ہے کہ عرب کا خطہ امریکی اثر رسوخ سے سرک رہا ہے۔ یا اب اتنا دباؤ میں نہیں جتنا پہلے تھا۔ اس کو امریکہ کے سامنے کھڑی دوسری طاقت کا ساتھ میسر آ رہا ہے۔

شنگھائی  تعاون کی تنظیم اور پاکستان:

شنگھائی  تعاون کی تنظیم کے بائیسویں اجلاس میں شرکت کے لیے شہباز شریف صاحب بطور وزیر اعظم پاکستان  دو روزہ دورے پر ازبکستان گئے۔ ہمراہ ان کے وزیر دفاع  خواجہ آصف، وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور  وزیر خارجہ بلاول بھٹو تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اجلاس کی سائیڈ لائنز پر  پاکستانی وزیر اعظم کی ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور روسی صدر پیوٹن سے اہم ملاقاتیں ہوئیں۔ روسی صدر نے  پاکستان کو گیس  پائپ لائن بچھا کر گیس فراہم کرنے کے ارادے کو  دہرایا۔ شہباز شریف کی چینی صدر شی جی پنگ سے بھی ملاقات ہوئی، تفصیلات جس کی اب تک باہر آنا باقی ہیں۔

چونکہ پاکستان چینی فلیگ شپ پروجیکٹ بیلٹ اور روڈ انیشئیٹو کا اہم حصہ دار ہے، اس لیے اس کی شنگھائی  تعاون کی تنظیم میں اس کی اہم جگہ ہے۔ پاکستان 2017 میں اس  تنظیم کا باقاعدہ رکن بنا۔ تاہم بھارت کو بھی پاکستان کے ساتھ ہی اس تنظیم کا رکن بنایا گیا۔  بھارتی وزیر اعظم اور متعصب ہندوتوا پالیسیوں کے علم بردار مودی بھی اس تنظیم میں شریک تھے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے بتایا کہ شہباز شریف مودی سے ملاقات  کا ارادہ نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کی کوئی ملاقات طے ہے۔

متعلقہ عنوانات