ذوالفقار احسن کی غزل

    یہ شام کا بڑھتا ہوا سایہ ہے کہ میں ہوں

    یہ شام کا بڑھتا ہوا سایہ ہے کہ میں ہوں تا حد نظر آنکھ میں صحرا ہے کہ میں ہوں آخر تجھے یہ فیصلہ کرنا ہی پڑے گا تیرے لیے بہتر تری دنیا ہے کہ میں ہوں تصدیق جو تو نے مرے ہونے کی ابھی کی یہ دیکھ کے میں نے بھی یہ سوچا ہے کہ میں ہوں جھلمل کبھی احساس میں بکھری تو یہ سوچا مہتاب کسی جھیل ...

    مزید پڑھیے

    دل کی تختی سے مری یاد کھرچنے والے

    دل کی تختی سے مری یاد کھرچنے والے اس قدر جلد نہیں نقش یہ مٹنے والے پھر کسی یاد کا پودا نہ لگانا دل میں جان لیوا ہیں شگوفے بھی یہ کھلنے والے گھپ اندھیروں کا تدارک بھی ضروری ٹھہرا شب کے پہلو سے ہیں تارے بھی نکلنے والے بور چاہت کا درختوں پہ لگا دیکھا ہے شاخ امید پہ ہیں پھول بھی ...

    مزید پڑھیے

    خود ہی تصویر ہوتے جاتے ہیں

    خود ہی تصویر ہوتے جاتے ہیں عکس جب آئنوں میں آتے ہیں خواب اتنے ہی پھیلتے جائیں جس قدر حاشیے بناتے ہیں چیخ پڑتی ہے صحن کی وسعت جب بھی دیوار ہم اٹھاتے ہیں غم بھی دیمک مثال ہوتے ہیں سب کو اندر سے چاٹ جاتے ہیں عہد ہم سے نہ کیجئے کوئی عہد اک پل میں ٹوٹ جاتے ہیں

    مزید پڑھیے

    آس کے دیپ بجز تیرے بجھا بیٹھے ہیں

    آس کے دیپ بجز تیرے بجھا بیٹھے ہیں در پہ تیرے جو لیے حرف دعا بیٹھے ہیں دل تو پہلے ہی گیا تھا تری آواز کے ساتھ تجھ کو دیکھا ہے تو آنکھیں بھی گنوا بیٹھے ہیں تجھ سے معانی کا تقاضا بھی نہیں کر سکتے دل کی شاخوں سے بھی الفاظ اڑا بیٹھے ہیں ساتھ چلنے سے گریزاں ہیں اسی واسطے ہم دھوکہ پہلے ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ میں گر تجھے رکھا جائے

    آنکھ میں گر تجھے رکھا جائے پھر کوئی خواب نہ دیکھا جائے اس سے بچھڑے تو سمجھ میں آیا یوں کسی کو بھی نہ چاہا جائے مجھ کو بھی ساتھ لیے پھرتا ہے جس طرف سوچ کا دریا جائے اپنے اندر وہ چھپا بیٹھا ہے اپنے ہی آپ کو پرکھا جائے ایک نقطے پہ جمی ہیں سوچیں گھر سے باہر کہیں نکلا جائے

    مزید پڑھیے

    اسرار بڑی دیر میں یہ مجھ پہ کھلا ہے

    اسرار بڑی دیر میں یہ مجھ پہ کھلا ہے انوار کا منبع مرے سینے میں چھپا ہے کیا سوچ کے بھر آئی ہیں یہ جھیل سی آنکھیں کیا سوچ کے دریا کے کنارے تو کھڑا ہے بجھتے ہوئے اس دیپ کا تم حوصلہ دیکھو جو صبح تلک تیز ہواؤں سے لڑا ہے افتاد پڑی جب تو ہوا مجھ سے گریزاں سائے کی طرح جو بھی مرے ساتھ رہا ...

    مزید پڑھیے

    تو اڑنے کا جب بھی ارادہ کرے گا

    تو اڑنے کا جب بھی ارادہ کرے گا فلک اپنا سینہ کشادہ کرے گا ابھی دل کو قابو میں کر لو تو بہتر یہ مجبور ورنہ زیادہ کرے گا سفر کا ارادہ بدل جائے شاید رہ دل وہ جب تک کشادہ کرے گا معانی کا اس میں سمندر سا ہوگا بظاہر وہ ہر بات سادہ کرے گا وہی نوجواں ہوگا ملت کا تارا جو تعلیم سے استفادہ ...

    مزید پڑھیے

    کوئی شکوہ نہ شکایت ہے بچھڑنے والے

    کوئی شکوہ نہ شکایت ہے بچھڑنے والے بے وفائی تری عادت ہے بچھڑنے والے ہم جو زندہ ہیں تو زندہ بھی نہیں ہیں دیکھو اک بپا روز قیامت ہے بچھڑنے والے میری سانسوں کی روانی کا سبب پوچھتے ہو تیرے چہرے کی تلاوت ہے بچھڑنے والے چین تم کو جو نہیں آتا کسی بھی لمحے یہ محبت کی علامت ہے بچھڑنے ...

    مزید پڑھیے

    دل کے تاروں کو ہلا دیتی ہے آواز تری

    دل کے تاروں کو ہلا دیتی ہے آواز تری اک نیا درد جگا دیتی ہے آواز تری ایک تالاب ہوں ایسا کہ جہاں یادیں ہیں اس میں کنکر سا گرا دیتی ہے آواز تری تو ہے دریا تو کہیں دور چلا جا مجھ سے تشنگی اور بڑھا دیتی ہے آواز تری میں تو آواز میں ہوتا ہوں معانی کی طرح اور آواز لگا دیتی ہے آواز ...

    مزید پڑھیے

    اس نے آخر دیا جلانا ہے

    اس نے آخر دیا جلانا ہے شام کو میں نے ڈوب جانا ہے پھر سرا کوئی ہاتھ آئے گا بس کڑی سے کڑی ملانا ہے میری پرواز میں یہ حائل ہے راہ سے آسماں ہٹانا ہے دل کی باتیں تمام کہہ دوں گا بس تمہیں حوصلہ بڑھانا ہے وہ جو اوروں پہ مسکراتا تھا اب اسے خود پہ مسکرانا ہے دن کے بکھرے ہوئے اجالے ...

    مزید پڑھیے