دل کی تختی سے مری یاد کھرچنے والے

دل کی تختی سے مری یاد کھرچنے والے
اس قدر جلد نہیں نقش یہ مٹنے والے


پھر کسی یاد کا پودا نہ لگانا دل میں
جان لیوا ہیں شگوفے بھی یہ کھلنے والے


گھپ اندھیروں کا تدارک بھی ضروری ٹھہرا
شب کے پہلو سے ہیں تارے بھی نکلنے والے


بور چاہت کا درختوں پہ لگا دیکھا ہے
شاخ امید پہ ہیں پھول بھی کھلنے والے


جب پکارا ہے ترے نام کو اے رب کریم
کام بنتے ہی چلے جائیں بگڑنے والے


اب تو تدبیر نئی ڈھونڈنی ہوگی احسنؔ
صرف باتوں سے نہیں ہیں وہ بہلنے والے