اسرار بڑی دیر میں یہ مجھ پہ کھلا ہے

اسرار بڑی دیر میں یہ مجھ پہ کھلا ہے
انوار کا منبع مرے سینے میں چھپا ہے


کیا سوچ کے بھر آئی ہیں یہ جھیل سی آنکھیں
کیا سوچ کے دریا کے کنارے تو کھڑا ہے


بجھتے ہوئے اس دیپ کا تم حوصلہ دیکھو
جو صبح تلک تیز ہواؤں سے لڑا ہے


افتاد پڑی جب تو ہوا مجھ سے گریزاں
سائے کی طرح جو بھی مرے ساتھ رہا ہے


ذرات کی صورت نہ بکھر جائے کہیں پھر
اک خواب جو آنکھوں میں مری آن بسا ہے