یہ شام کا بڑھتا ہوا سایہ ہے کہ میں ہوں

یہ شام کا بڑھتا ہوا سایہ ہے کہ میں ہوں
تا حد نظر آنکھ میں صحرا ہے کہ میں ہوں


آخر تجھے یہ فیصلہ کرنا ہی پڑے گا
تیرے لیے بہتر تری دنیا ہے کہ میں ہوں


تصدیق جو تو نے مرے ہونے کی ابھی کی
یہ دیکھ کے میں نے بھی یہ سوچا ہے کہ میں ہوں


جھلمل کبھی احساس میں بکھری تو یہ سوچا
مہتاب کسی جھیل میں اترا ہے کہ میں ہوں


ایسے ہی تذبذب میں پڑا سوچ رہا ہوں
بادل ہی بہت ٹوٹ کے برسا ہے کہ میں ہوں


منظر جو یہ دیکھا ہے تو دل کانپ اٹھا ہے
یہ شاخ سے ٹوٹا ہوا پتا ہے کہ میں ہوں


ان آنکھوں میں کیا جانیے کیا بات ہے احسنؔ
دیکھا جو کسی نے یہی سمجھا ہے کہ میں ہوں