دل کے تاروں کو ہلا دیتی ہے آواز تری

دل کے تاروں کو ہلا دیتی ہے آواز تری
اک نیا درد جگا دیتی ہے آواز تری


ایک تالاب ہوں ایسا کہ جہاں یادیں ہیں
اس میں کنکر سا گرا دیتی ہے آواز تری


تو ہے دریا تو کہیں دور چلا جا مجھ سے
تشنگی اور بڑھا دیتی ہے آواز تری


میں تو آواز میں ہوتا ہوں معانی کی طرح
اور آواز لگا دیتی ہے آواز تری


پھر لپک اور بھی بڑھ جاتی ہے اس کے کارن
شعلۂ جاں کو ہوا دیتی ہے آواز تری


برسوں پہلے بھی سنی تھی یہی آواز کہیں
فاصلوں کو تو مٹا دیتی ہے آواز تری


دستگیری بھی تو کرتی ہے ہمیشہ میری
گرنے لگتا ہوں اٹھا دیتی ہے آواز تری


ٹوٹنے لگتا ہے اندر سے کہیں احسنؔ بھی
ایک ہلچل سی مچا دیتی ہے آواز تری