وفا صدیقی کی غزل

    بچھڑا ہے کون مجھ سے کہاں یہ خبر نہ دو

    بچھڑا ہے کون مجھ سے کہاں یہ خبر نہ دو مڑ مڑ کے دیکھنا پڑے ایسا سفر نہ دو دل کی بصیرتوں سے جو رشتہ ہی توڑ دے آنکھوں کو میری دوستو ایسی نظر نہ دو ہر شہر اور گاؤں میں جوہر شناس ہیں وعدے تسلیوں کے یہ رنگیں گہر نہ دو وہ پتھروں کے شہر سے آیا ہے لوٹ کر شیشے کے گھر کہاں ہیں اسے یہ خبر نہ ...

    مزید پڑھیے

    میرا دست آرزو پھیلا ہوا

    میرا دست آرزو پھیلا ہوا اور اس نے ہاتھ ہے کھینچا ہوا دشت میں مجھ کو صدا دیتا ہے کون کون آیا ہے یہاں بھٹکا ہوا اتنا دوڑا ہوں سرابوں کی طرف بہتے دریاؤں پہ بھی دھوکا ہوا کیا اماں مانگوں میں اس سے جان کی جانکنی میں ہے جو خود الجھا ہوا جس طرف دیکھو جزیرے بن گئے کیا سمندر بھی ہے اب ...

    مزید پڑھیے

    قرب منزل ٹوٹ جائے حوصلا اچھا نہیں

    قرب منزل ٹوٹ جائے حوصلا اچھا نہیں فصل کو پکنے سے پہلے کاٹنا اچھا نہیں ڈوبنے والے بھی اس کشتی کے کم شاطر نہ تھے عادتاً کہتے رہے تھے نا خدا اچھا نہیں غیر کو پہلے پرکھتے مجھ سے پھر منہ موڑتے جلد بازی میں تمہارا فیصلہ اچھا نہیں میں تو بازی ہار کر بے فکر ہو کر چل دیا جیتنے والوں کو ...

    مزید پڑھیے

    اس نگری میں وہ بھی مگن تھا

    اس نگری میں وہ بھی مگن تھا لوہے جیسا جس کا بدن تھا آج ہے وہ اک خشک شجر سا کل جو رشک صحن چمن تھا جنگل جنگل اس کی خوشبو پھول وہ کب محدود چمن تھا مجھ کو نہ آئی تلخ نوائی شہد سے میٹھا میرا سخن تھا دیکھا نہ اس میں اپنا چہرہ میرے گھر میں جو درپن تھا رکھوالوں نے ایسے لوٹا پل میں خالی ...

    مزید پڑھیے

    شہر کی لکھ گیا اک دھواں داستاں

    شہر کی لکھ گیا اک دھواں داستاں بام و در ہو گئے خونچکاں داستاں سننے والوں کو ہو جب گراں داستاں چھوڑ دو پھر وہیں ہو جہاں داستاں ایک ہی سب کی روداد ہے شہر میں ہر مکیں داستاں ہر مکاں داستاں یہ تو ماضی کے اوراق بتلائیں گے اس نے فردا کی لکھی کہاں داستاں میرا اور اس کا ہر راز افشا ...

    مزید پڑھیے

    جو تجھ سے منسوب ہوا ہے

    جو تجھ سے منسوب ہوا ہے وہ سب کا محبوب ہوا ہے شہر میں اس پر پتھر برسے پھر بھی کب مرعوب ہوا ہے آج سنا ہے میخانے میں ہنگامہ تو خوب ہوا ہے فرحت افزا جو ہوتا تھا موسم وہ مرطوب ہوا ہے کیسے پوچھوں اس سے آخر کیوں مجھ سے محجوب ہوا ہے کاغذ پر جو لکھتا رہا ہوں فکر بھرا مکتوب ہوا ہے فرد ...

    مزید پڑھیے

    وفا کی منزلوں کو ہم نے اس طرح سجا لیا

    وفا کی منزلوں کو ہم نے اس طرح سجا لیا قدم قدم پہ اک چراغ آرزو جلا لیا رہ حیات میں ہزار الجھنیں رہیں مگر تمہارا غم جہاں ملا اسے گلے لگا لیا ہمارے حوصلے ہماری جرأتیں تو دیکھیے قضا کو اپنی زندگی کا پاسباں بنا لیا ہزار بار ہم فراز دار سے گزر گئے ہزار بار ہم نے ان کا ظرف آزما ...

    مزید پڑھیے

    یہ کشمکش منعم و نادار کہاں تک

    یہ کشمکش منعم و نادار کہاں تک سرمایہ و محنت کی یہ تکرار کہاں تک ٹوٹے گی نہ ظلمات کی دیوار کہاں تک اٹھے گی نہ وہ چشم سحر بار کہاں تک اس شہر دل آزار میں اب دیکھنا یہ ہے رہتی ہے یوں ہی یورش آزار کہاں تک خوشنودی‌ٔ صیاد کی خاطر یوں ہی یارو زندانوں کو کہتے رہیں گلزار کہاں تک اک روز ...

    مزید پڑھیے

    جل گئے افکار تیرے میری تحریریں جلیں

    جل گئے افکار تیرے میری تحریریں جلیں اب نمائش کس کی ہوگی ساری تصویریں جلیں جن کی بنیادوں میں اک تقدیس تھی تہذیب تھی آج میرے شہر کی وہ ساری تعمیریں جلیں یہ تو زنداں کے نگہباں ہی بتائیں گے تمہیں کن اسیروں نے لگائی آگ زنجیریں جلیں آتشیں صحرا میں میرے خواب تو محفوظ تھے یہ نہیں ...

    مزید پڑھیے